پھر ہوا امریکہ کا دوہرا چہرہ بے نقاب

دہشت گردی کو پالنے اوراسپانسر کی شکل میں بدنام پاکستان کو امریکہ کے ذریعے سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے 86 کروڑ ڈالر مالیت کی فوجی امداد دینے پر آمادگی سے امریکہ ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے کہا ہے کہ اس نے پاکستان کو تقریباً 70 سے80 کروڑ ڈالر قیمت کے 8 ایف 16- جنگی جہام فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیوکلیائی ہتھیار لے جانے میں استعداد رکھنے والے ان جنگی جہازوں کی فروخت کی تجویز کو ریپبلکن ممبران والی کانگریس میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مدد کیلئے ایمرجنسی فنڈ کا سہارا اس لئے بھی لیا گیا ہے تاکہ اس پر روک لگانے کی کوشش کامیاب نہ ہوسکے۔ حال ہی میں پاکستان کو ایف۔16 جنگی جہاز کی سپلائی دینے کی تجویز پر امریکی سینیٹ رکاوٹ ڈال چکی ہے لیکن اس کے باوجود اوبامہ پاکستان کو یہ مدد کرنے پر آمادہ ہیں۔ امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ پاکستان کو دی جانے والی امریکی سکیورٹی مدد دہشت گردوں کے ذریعے پاکستانی سرزمیں کا استعمال پناہ گاہ کی شکل میں کئے جانے کی صلاحیت کو کم کرتی ہے۔ ہم ان موصوف افسر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا پاکستان ان ایف۔16 جنگی جہازوں کا استعمال حافظ سعید ، مسعود اظہر و زکی الرحمان لکھوی کے خلاف کرے گا؟ اس فیصلے سے دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی عالمی جنگ میں امریکی ارادوں اور سنجیدگی کی قلعی کھل گئی ہے۔ آج جب دنیابھر میں انتہاپسندوں کے مالی ذرائع کو بند کرنے یا منجمد کرنے کی بات زور شور سے کی جارہی ہے تب پاکستان پر امریکی مہربانی حیران اور پریشان کرنے والی ہے۔ادھر پاکستان کی سرگرمیوں کو بڑا مسئلہ بتاتے ہوئے ریپبلکن پارٹی کے ایک بارسوخ سینیٹر نے 8 ایف ۔16 جنگی جہاز اس دیش کو بیچنے پر روک لگانے کا عہد کیا ہے جو دھوکے باز ساتھیوں کی شکل میں کام کررہا ہے اور دہشت گرد گروپوں کو محفوظ پناہ گاہ مہیا کراتا ہے۔ ایک انگریزی میگزین وال اسٹریٹ جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ جان کیری کو لکھے خط میں سینیٹر باب کوٹکر نے کہا کہ وہ اوبامہ انتظامیہ کو ٹیکس دہندگان کے گھر کا استعمال جیٹ کی بکری کرنے میں نہیں دے سکتے جبکہ حقانی نیٹ ورک جیسی دہشت گردتنظیم پاکستان میں پناہ لئے ہوئی ہیں۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملہ کرتے ہیں۔9 فروری کو اس لکھے خط میں کوٹکر نے کہا کہ پاکستان کی سرگرمیاں بیحد بحران کن ہیں اور اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ پاکستان دھوکے باز ساتھی ہے جو علاقے میں چیلنجوں کو حل کرنے میں آگے آنے کے بجائے کنی کاٹتا ہے۔ وزیر خارجہ نے امریکی کانگریس کو بھیجے سالانہ بجٹ میں پاکستان کو 859.8 ملین ڈالر کی مدد دینے کی تجویز کی ہے۔ جس میں 265 ملین ڈالر کا فوجی سازو سامان ہے۔ اعلانیہ طور پر یہ مدد پاکستان کو دہشت گردی سے لڑنے ،کٹر پسند تنظیموں کے صفائے اور نیوکلیائی ہتھیاروں اور اداروں کو محفوظ رکھنے، افغانستان میں امن عمل اور بھارت سے رشتے بہتر بنانے کیلئے دی گئی ہے۔ لیکن اس کا ایک تہائی حصہ صرف فوجی سازو سامان کیلئے ہے۔ جس افغانستان کی فکرمندی میں امریکہ اتنا دبلا ہوتا جارہا ہے اسے طالبان کے ذریعے دہشت گردی کی عالمی پناہ گاہ بنانے میں خود اس کی اور اس کے ہمنوا پاکستان کا ناپاک کردار کی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکی ہے۔ امریکہ کی شکاگو جیل میں بند ڈیوڈ ہیڈلی کے انکشافات سے بھی اوبامہ انتظامیہ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ہمیشہ کی طرح پاکستان سارے سازو سامان کا استعمال بھارت یا افغانستان کے خلاف ہی کرے گا۔ تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ پاکستان نے امریکی مدد کا استعمال اپنے یہاں آتنکی اسٹرکچر تباہ کرنے میں کم اور بھارت کے خلاف فوجی برتری بنائے رکھنے کیلئے زیادہ کیا ہے۔اپنے نیوکلیائی پروگرام کا مسلسل فروغ اور لمبی دوری کی میزائلیں بناتے رہنے کے بارے میں دنیا جانتی ہے۔ پاکستان اب تک خود کو دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار بتا کر عالمی برادری کی توجہ اپنی طرف اپنی کارستانیوں سے ہٹانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہے ، ایک طرف امریکی مدد دوسری طرف چینی دوسری۔ نشانے پر ہے بھارت۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟