شام میں اگر سعودی عرب نے فوجی بھیجے تو چھڑ سکتی ہے عالمی جنگ

سعودی عرب، شام میں جلد میدانی جنگ کی تیاری کررہا ہے۔حال ہی میں جاری رپورٹس کی مانیں تو سعودی عرب شام بارڈر سے لگے ترکی کے انکپلنگ ہوائی اڈے پر اپنے جنگی جہاز اور فوجیوں کو بھیج رہا ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ میولت کابوسوگل نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ شام میں زمینی جنگ کے لئے فوجی بھیجنے کی سعودی عرب اور ترکی کے ارادوں پر روس بھڑک اٹھا ہے۔ جرمنی پہنچے روس کے وزیر اعظم دیمیتری میدوف نے جمعہ کو دھمکی دی تھی کہ ایسا کرنے سے زمین پر ایک اور عالمی جنگ چھڑسکتی ہے۔دراصل ایسے امکانات جتائے جارہے ہیں کہ شام میں زمینی فوج بھیجنے کی سعودی عرب اور ترکی کی پہل کے بعد امریکہ بھی اس میں شامل ہوسکتا ہے۔ صدر بشر الاسد کی قیادت والی شامی فوجوں کے علاقے میں بڑھت بنانے سے چڑھے سعودی عرب اور ترکی نے یہ رخ دکھایا ہے۔ الیدھوں کے آدھے حصے پر آئی ایس ، النصرہ فرنٹ، اہران الشام جیسی کئی باغی تنظیموں کا قبضہ ہے۔ سعودی عرب، ترکی ، شام میں اسد مخالف باغی گروپوں کی چپ چاپ مدد کررہے ہیں۔ دوسری طرف روس اسد کی حمایت میں کھڑا ہوا ہے۔ شام پر مذاکرات کیلئے میونخ پہنچے روسی وزیر اعظم نے آگاہ کیا کہ زمینی فوج اتارنے کی کوئی بھی کوشش باقاعدہ جنگ کی طرف لے جائے گی۔ سب کو پتہ ہے کہ افغانستان اور لیبیا میں کیا ہوا ہے۔ سبھی فریقین کو میز پر بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالنا چاہئے۔ روسی ہوائی حملوں کی مددسے کرد باغیوں نے ترکی۔ شام سرحد پر ہوائی ٹھکانوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ میدوف نے کہا کہ امریکہ اور اس کے عرب ساتھیوں کو اچھی طریقے سے سوچنا چاہئے کیا وہ مستقل جنگ چاہتے ہیں؟ کیا انہیں لگتا ہے کہ وہ اتنی جلد جیت جائیں گے؟ دوسری طرف برطانیہ کے وزیر خارجہ فلپ ہیلمینڈ نے کہا کہ سمجھوتہ تبھی کامیاب ہوگا جب روسی کٹر پسند باغی گروپوں پر بمباری بند ہوگی۔ ترکی نے بھی کہا ہے کہ روس شہریوں پر حملہ کرنا بند کرے۔امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر نے بھی کہا کہ گزشتہ مہینوں میں اسد انتظامیہ کے تئیں روسی حمایت اور حال ہی میں الیدھوں کی گھیرا بندی نے جنگ اور تیز کردی ہے۔ جنگ بندی کرانے کے لئے دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان شام نے حالانکہ ایک ہفتے میں جنگ بندی پر اتفاق اور باغیوں کے قبضے والے علاقوں میں امداد پہنچانے کی ایک اسکیم پر گزشتہ جمعہ کو میونخ میں رضامندی بنی تھی لیکن نیٹو تنظیم کے مشتعل بیانوں سے ایسا ہونا فی الحال مشکل ہی لگتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور روسی وزیر خارجہ میدوف سمیت 17 ملکوں کے نمائندے میونخ میں ہوئی اس بات چیت میں شامل ہوئے۔ دوسری طرف جنگ بندی کیلئے بڑھتے عالمی دباؤ کے درمیان شام کے صدر بشر الاسد نے پورے دیش شام پر اپنا کنٹرول بحال کرنے کا عہد دوہرایا ہے ساتھ ہی انہوں نے جنگ ختم کرنے کیلئے بات چیت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے لڑائی جاری رکھنے کا بھی عزم جتایا ہے۔ اسد نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی سرکار کا مقصد پورے دیش پر پھر سے اختیار حاصل کرنا ہے۔ فرانس کے وزیر اعظم مینلوالسن کا خیال ہے کہ یوروپ میں ابھی آئی ایس اور بڑے دہشت گردانہ حملے کرسکتا ہے۔ آتنکی تنظیم آئی ایس کے بارے میں ایک اور خطرناک جانکاری سامنے آئی ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن نے ایک نیوز چینل سے بات چیت میں خلاصہ کیا ہے کہ آئی ایس نے کیمیائی ہتھیار بنا لئے ہیں اور کچھ مورچوں پر ان کا استعمال بھی کیا ہے۔ ان کے مطابق آئی ایس نے کلورین اور مسٹرڈ گیس بھی تیار کرلی ہے۔ عراق اور شام کے جنگی محاذ سے جو اطلاعات ملی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ آئی ایس نے وہاں کچھ موقعوں پر کیمیاوی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟