اترپردیش میں پنچایتوں پر سپا کا پرچم لہرایا

ساکھ اور کارگزاری تقریباً تقریباً سبھی مورچوں پر امیدوں سے کم اترنے کے باوجود اترپردیش ضلع پنچایت پردھان چناؤ میں سماجوادی پارٹی کی شاندار جیت چونکانے والی ضرور ہے۔ ریاست میں پنچایت کی جنگ میں ایک بار پھر اقتدار کی دھمک بھاری پڑی۔ اترپردیش کی 74 میں سے59 ضلع پنچایتوں پر سماجوادی پارٹی نے پرچم لہرایا ہے جبکہ بھاجپا 6 ، بسپا 4 مقامات پر ہی کامیاب رہی۔ کانگریس اور راشٹریہ لوکدل کو بھی 1-1 سیٹ پر کامیابی حاصل ہوئی جبکہ سپا کے تین باغیوں نے پارٹی کے سرکاری امیدواروں کو پٹخنی دے دی۔ سپا کے آگے وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقے بنارس میں بھی بھاجپا نے اپنی پارٹی کا اتحاد کارگر نہیں رہا۔ یہاں سپا امیدوار اپراجتا نے 48 کے مقابلے30 ووٹ حاصل کر مشترکہ امیدوار اجیت سونکر کو 13 ووٹوں سے ہرادیا۔ فطری ہے کہ سماجوادی پارٹی سے اپنی سرکار اور ترقیاتی کاموں کے تئیں عوام کے مناسب رخ کو انعام بتائے، بھاجپا کا تو حال یہ رہا کہ پارٹی نہ تو پردھان منتری نریندر مودی کے چناوی حلقے بنارس کو بچا پائی اور نہ پردیش پردھان ڈاکٹر لکشمی کانت واجپئی کے گڑھ میرٹھ میں بھی ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ جبکہ کانگریس نے بہرحال رائے بریلی میں اپنی عزت بچانے میں کامیابی حاصل کی لیکن امیٹھی میں اس کا امیدوار ہار گیا۔ جہاں تک بہوجن سماج پارٹی کی بات ہے تو بیشک بسپا کو مقابلتاً کم سیٹیں ملی ہوں لیکن یہ اکیلی پارٹی تھی جس نے زیادہ تر سیٹوں پر سماجوادی پارٹی سے سیدھی لڑائی لڑی۔ سپا کی یہ جیت اس لئے بھی اہم ہے کہ انہیں چناؤ کو لیکر سپا میں کافی ہلچل اور توڑ پھوڑ رہی۔ سپا کے چیف ملائم سنگھ و ان کے بیٹے وزیر اعلی اکھلیش یادو کے بڑھتے اثر کا بھی نمونہ ملا۔ بیشک اگلے سال ہونے والے اسمبلی چناؤ ابھی دور ہیں لیکن پنچایت چناؤ سے صوبے میں ہوا کا رخ ضرور پتہ چلتا ہے۔ عام طور پر سپا کی ساکھ اترپردیش میں کوئی خاص اچھی نہیں ہے۔ لوگ اب بسپا کو پھر سے اقتدار میں لانے کی بات کررہے ہیں۔ ادھر بھاجپا بھی اتنی آسانی سے یوپی کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بھاجپا کا گراف مسلسل گرتا جارہا ہے۔ اب اس بات پر قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ شاید دو بار صوبے کے وزیر اعلی رہے کلیان سنگھ کو پارٹی اپنا چہرہ بنا کر چناؤ لڑے۔ نریندر مودی نے اترپردیش میں 73 لوک سبھا سیٹیں جیت کر جو ریکارڈ قائم کیا تھا وہ اسمبلی میں دوہرانابہت مشکل لگتا ہے البتہ یہ ماننا مشکل ہے کہ اس جیت سے اترپردیش میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی چناؤ میں سپا کو کوئی کرشمائی بڑھت ملنے والی ہے۔ اول تو بلدیاتی چناؤ کو نہ تو اسمبلی چناؤ یا لوک سبھا چناؤ سے جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اشو یکساں ہوتے ہیں۔ بسپا کا الزام ہے کہ سپا نے یہ جیت پیسے ،دبنگی اور اقتدار کے سہارے جیتی ہے لیکن پانچ سال پہلے صوبے کے اقتدار پر قابض بسپا نے بھی ضلع پنچایت پردھان چناؤ میں ایسی ہی کامیابی حاصل کی تھی۔ سپا کو اس بات کی بھی جانچ کرنی چاہئے کہ بجنور، سیتا پور، اناؤ میں اسی کے باغی امیدواروں نے پارٹی کے سرکاری امیدواروں کو آخری دن ہٹا دیا؟ ہردوار پنچایت چناؤ ویسے تو محض ایک ضلع کے ہی چناؤ ہیں لیکن مینڈیٹ نے چھوٹی سرکار چننے میں جس رجحان کو پیش کیا ہے اس سے موجودہ سرکار اور اگلے سال 2017 میں سرکار بنانے کی دعویدار بھاجپا و کانگریس دونوں کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ یہی نہیں اتراکھنڈ میں اقتدار کیلئے کانگریس سے اتحاد کے بعد سیاسی زمین گنوا چکی بھاجپا غیر متوقعہ طور سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اہم یہ بھی ہے کہ ضلع پنچایت پردھان کے عہدے کے چناؤ میں اہم کردار نبھانے والے منتخبہ 17 آزاد ضلع پنچایت ممبروں میں سے اکیلے بسپا کے باغیوں کی تعداد10 ہے۔ کانگریس کے4، بھاجپا کے2 باغی بھی چناؤ جیتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟