بھارت کی سرداری کو انگوٹھا دکھاتے پاک اور چین

پاکستان اور چین دونوں ملکوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ بھارت کی عزت ساکھ و سرداری کو چیلنج کریں گے۔ پاکستان آئے دن اپنی ناپاک حرکتوں سے باز نہیں آتا۔ اب اپنے قبضے میں گلگت۔ بلتستان کو پاکستان آئینی درجہ دینے کی تیاری کررہا ہے۔ پاکستان کے اس قدم سے ہندوستان کی مشکلیں اور بڑھ سکتی ہیں، کیونکہ بھارت اس علاقے کو متنازعہ کشمیری علاقے کا حصہ مانتا ہے۔ پاکستان اب جموں و کشمیر کے اٹوٹ حصے گلگت بلتستان کو آئینی طور سے اپنا صوبہ بنانے کی فراق میں ہے۔ اسی کڑی میں اس نے ایک اعلی سطحی کمیٹی بنائی ہے۔ علاقے کے کٹھ پتلی سرکار سے بات چیت کا دکھاوا کیا جارہا ہے۔ پاکستان پہلی بار اپنے آئین میں گلگت ۔ بلتستان کا تذکرہ کرنے جارہا ہے۔ بتادیں کہ پاکستان میں سال1973 میں نافذ آئین میں گلگت۔ بلتستان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ پاکستان میں اس علاقے کے انتظام کی ذمہ داری مبینہ طور پر کراچی معاہدے کے تحت حاصل کی تھی۔ پاکستان نے سازش کے تحت 1974 میں قواعد میں تبدیلی کر یہاں کی مردم شماری ٹیلی میں تبدیلی کی۔ سال2009 ء میں ایک 33 نفری کونسل بنائی۔ مانا جارہا ہے کہ یہ کام وہ اپنے دوست ملک چین کو خوش کرنے کے لئے کررہا ہے جس نے حکمت عملی کے طور پر علاقے سے ہوکر گزرنے والے 46 ارب ڈالر کے اہم معاشی گلیارے کو لی کر پاکستان سے اپنی تشویش بھی ظاہر کی تھی۔ نارتھ میں صرف گلگت۔ بلتستان ہی ایک ایسا سیاسی زون ہے جو چین سے سیدھا جڑتا ہے۔ یہ چین۔ پاک اقتصادی گلیارے کا بھی اہم راستہ ہے جس سے مغربی چین اور جنوبی پاکستان کے سڑک نیٹورک، ہائی وے ،ریلوے، سرمایہ کاری پارک سمیت گوادر بندرگاہ جڑتے ہیں۔ دراصل بھارت نے اقتصادی گلیارے کے پاک کے قبضے والے کشمیر سے ہوکر گزرنے پر اعتراض جتایا تھا۔ موجودہ وقت میں پاکستان گلگت اور بلتستان سمیت پورے پاک مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ خطہ مانتا ہے اور اس کے آئین میں اس کا کوئی ذکر بھی نہیں ہے۔رسمی طور سے تو پی او کے ایک مختار علاقہ ہے اس کا اشارہ دیتے ہوئے گلگت۔ بلتستان کے وزیر اعلی حفیظ الرحمن کے ترجمان سجاد الحق نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اس معاملے پر غور کے لئے ایک اعلی سطحی کمیٹی بنائی ہے۔ 9 جون2015ء کو پی او کے کے کٹھ پتلی وزیر اعظم چودھری عبدالمجید نے کہا بھی تھا کہ گلگت۔ بلتستان جموں و کشمیر کا حصہ ہے اور اسے صوبے کا درجہ دینا ہوگا۔ 1994ء میں پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں تسلیم کیا تھا کہ گلگت۔ بلتستان (تب شمالی زون) جموں و کشمیر ریاست کا اٹوٹ حصہ ہے۔ ادھر چین نے بھی طے کرلیا ہے کہ وہ پی او کے میں بڑا ڈیم بناکر رہے گا۔ چین کی سرکاری کمپنی نے اس ڈیم کو بنانے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ یہ اشارہ ہے بھارت کے بڑے احتجاج کے باوجود چین پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بڑے پروجیکٹوں پر کام کررہا ہے۔ چین کی سب سے بڑی سرکاری ہائیڈرو پاور کمپنیوں میں سے ایک جی ٹی سی سی نے پی او کے میں ڈیم بنانے کے لئے معاہدہ کیا ہے۔ پاکستانی میڈیا رپورٹ کے مطابق چین نے اس کیلئے 30 سال کے ٹیرف معاہدہ کیا ہے۔ بھارت پہلے ہی چین کی سرگرمیوں پر اعتراض جتا چکا ہے لیکن چین نے اسے اصلی کاروباری سرگرمیاں قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ پر دستخط کرتے وقت کشمیر اشو پر پہلے سے کوئی شرط نہیں رکھی گئی ہے۔ ساتھ ہی کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی بھی تنازعے پر چین کا موقف مایوس کن ہے۔ ظاہر ہے نہ تو پاکستان کو اور نہ ہی چین کو بھارت کی تشویشات کی کوئی فکر ہے۔ دونوں اپنے پلان کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں اور بھارت خاموش تماشائی بنا ہواہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟