مفتی کے جانے کا اثر کشمیر کی سیاست پر پڑے گا

جموں و کشمیر کے وزیر اعلی مفتی محمد سعید کا جانا افسوسناک تو ہے ساتھ ہی ساتھ ان کے وارث کے لئے کئی چنوتیاں چھوڑگیا ہے۔ دیش کے سب سے اشانت اور اٹھا پٹخ والے صوبے کو پٹری پرلانے میں جو سمجھداری، سنجیدگی،ملک کسی سیاستداں سے چاہ رہا تھا اس کے قریب تک جانے کا حوصلہ مفتی صاحب نے ہی دکھایا۔مفتی کے جانے کا اثر کشمیر، پی ڈی پی، بی جے پی اور دیش سبھی کو کسی نہ کسی شکل میں محسوس ہوتا رہے گا۔ گذشتہ کچھ سالوں میں سعید کا قد اتنا بڑا ہوگیا تھا کہ اس کی چھتر چھایا میں کافی چیزیں محفوظ محسوس کی جاتی تھیں۔ سعید کشمیر میں ایک طرح کے سنتولن کے پرتیک تھے۔ کشمیرمیں الگاؤوادی اور گرم پنتھی نیتا بھی کہتے کچھ بھی رہتے ہوں لیکن وہ بھی مفتی کا سنمان کرتے تھے۔ بی جے پی کے ساتھ سرکار بنا کر مفتی نے اپنی اسٹیٹ مین شپ کا ثبوت دیا۔ یہ بڑا رسک تھا لیکن یہ رسک لے کر بھی انہوں نے بھارت اور لوک تنتر کے تئیں اپنی ذمہ داری اور مضبوطی سے ثابت کی۔ جموں و کشمیر میں اب جبکہ محبوبہ مفتی کا وزیر اعلی بننا طے سا ہے، سہیوگی دل کے طور سے شامل بھاجپا کے لئے یہ چنوتی بن سکتی ہیں۔ پارٹی حالانکہ اس بدلاؤ کے لئے پہلے سے ہیں من بنانے میں لگی تھیں لیکن یہ خدشہ برقرار ہے ۔پی ڈی پی کے ساتھ مل کر سرکار بنانا پہلے بھی بھاجپا کے لئے آسان فیصلہ نہیں تھا لیکن اس وقت ایک راحت یہ تھی کہ سامنے مفتی محمدسعید کا چہرہ تھا جو اپنی پارٹی میں نہ صرف کمانڈنگ پوزیشن پر تھے بلکہ مقابلہ جاتی طور سے دوسروں سے زیادہ نرم اور منطقی مانے جاتے تھے۔ محبوبہ اپنی پارٹی میں کٹر رخ کیلئے جانی جاتی ہیں۔ یاد دلا دیں کہ کچھ مہینے قبل اس کی جھلک اس وقت بھی دکھی تھی جب مفتی اس کیلئے راضی ہوگئے تھے کہ پاکستانی این ایم اے سے بات چیت کے لئے دہلی جانے کی تیاری کررہے الگاؤ وادی نیتاؤں کو گرفتار کرلیا جائے لیکن بعد میں ممکن ہے محبوبہ نے مداخلت کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ جلد ہی ان کی رہائی کرنی پڑی۔ مفتی جموں و کشمیر کے بیحد لوک پریہ نیتا تھے۔ ان کی لوک پریتا کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں سننے کے لئے جنتا دوڑی چلی آتی تھی۔ دفعہ370 کو لیکر بھی ان کی سوچ بیحد سیدھی اور صاف تھی۔انہیں عوام کے فائدے کیلئے کچھ بھی کر گزرنے سے پرہیز نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بار بار برا بھلا کہا جاتا تھا۔ عبداللہ پریوا ر کی جموں کشمیر سیاست میں بادلاستی گھٹانے میں انہیں آگے مانا جاتا تھا۔ الگاؤ وادی غلط فہمی میں پھنسے کشمیری عوام اور اس کے ایک مخالف پارٹی کٹرہندو وادی دل سے تال میل بٹھانے کا سہرہ بھی مفتی کو جاتا ہے۔ مفتی کا جانا نہ صرف جموں و کشمیر کا نقصان ہے بلکہ پورے دیش نے ایک اہم نیتاکو کھودیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟