وزیراعلی کیجریوال کی تجویز کی ہم حمایت کرتے ہیں

بچیوں سے بدفعلی کرنے والوں کو پھانسی ہونی چاہئے۔ یہ مانگ پورا دیش تبھی سے کررہا ہے جب سے16 دسمبر 2012 ء کو نربھیاکانڈ ہوا تھا۔ یہ بھی مانگ تبھی سے اٹھتی رہی ہے کہ گھناؤنے معاملوں میں نابالغ کی عمر18 سے گھٹا کر15 سال کرنی چاہئے۔ خیال رہے کہ نربھیا کانڈ میں اہم سازشی اس لئے بچ گیا کیونکہ وہ کچھ مہینوں کی کمی کے سبب نابالغ زمرے میں آگیا تھا۔ میں نے بار بار اسی کالم میں لکھا ہے کہ جب ایک نابالغ ایسے گھناؤنے جرائم کو پلان کرسکتا ہے اسے عملی جامہ پہناسکتا ہے تو اسے وہی سزا ملنی چاہئے جو بڑی عمر والوں کو ملتی ہے۔ جب ہم دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی اس مانگ کی حمایت کرتے ہیں کہ بچیوں سے بدفعلی کرنے والوں کو پھانسی ہو اور گھناؤنے جرائم میں15 سال سے زیادہ کے ملزم کو بالغ نہ مانا جائے۔دہلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال نے پیر کو کہا کہ اگر آبروریزی ،قتل جیسے گھناؤنے جرائم کرنے والے کی عمر15 سال سے زیادہ ہے تو اس کے ساتھ قانون بالغ کی طرح سے نمٹے اور اسی طرح سزا ملے۔16 سال کے بعد بالغ اعلان کئے جانے کو لیکر جوئنائل ایکٹ ابھی پارلیمنٹ میں لٹکا ہوا ہے۔ وزیر اعلی کی سربراہی میں کیبنٹ کی میٹنگ میں جرائم قانون میں ترمیم کی تجویز تیار کرنے کے لئے وزارت گروپ بنانے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ اس کا مقصد عورتوں کے خلاف گھناؤنے جرائم کے قصورواروں کو سخت سزا دلانا ہے۔ جی او ایم نابالغ (بچی) کے ساتھ آبروریزی معاملے میں ملزم کو تاعمر جیل یا پھانسی کی سزا کو لیکر قانون اور شقات کا تجزیہ کرنے کے بعد سفارش کرے گا ۔ اروند کیجریوال نے بتایا کہ داخلہ اور قانون محکمے کو مختلف عدالتوں میں لٹکے آبروریزی کے مقدموں کی فہرست بنانے کی بھی ہدایت دی گئی ہے تاکہ دہلی کے چیف جسٹس سے صلاح مشورہ کر جلد سے جلد معاملوں کا نپٹارہ کیا جاسکے۔جہاں گھناؤنے مجرموں کو سخت سزا دینے کی بات ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے مقدموں کا جلد نپٹارہ ہو۔ راجدھانی میں روز بروز ریپ اجتماعی آبروریزی (خاص کر بچیوں سے) کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ سیاسی پارٹیاں واردات ہونے پر الزام درالزام کی بوچھارکردیتی ہیں اور کچھ مظاہرے کر اپنی بڑھاس نکال لیتے ہیں۔ لیکن ان واقعات کو جڑ سے روکنے کی سمت میں کوئی کوشش میں نہیں ہے۔ وسنت وہار گینگ ریپ معاملہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ معاملے کا تذکرہ بیرونی ممالک تک میں بھی ہوا۔ باوجود اس کے اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ آخری فیصلہ اب تک کیوں نہیں ہوا؟16 سمبر 2012 ء کو اس گھناؤنی واردات کو ساکیت ٹرائل کورٹ نے 13 دسمبر کو اپنا فیصلہ دے دیا تھا ۔ قصورواروں ونے شرما، اکشے ٹھاکر، مکیش اور پون کو پھانسی کی سزا ملی۔ پانچویں ملزم رام سنگھ نے11 مارچ 2013 ء کو تہاڑ جیل میں خودکشی کرلی تھی۔ قصورواروں کوسنائی گئی پھانسی کی سزا کی تصدیق کی فائل ہائی کورٹ پہنچی ہوئی ہے۔ ہائی کورٹ نے فوراً نوٹس لے لیا اور محض6 مہینے میں ہی اپیل کا نپٹارہ کر ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو بدل دیا۔ ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ 13 مارچ2014ء کو دے دیا۔ اب معاملہ قریب ڈیڑھ سال سے (مارچ2014سے) التوا میں ہے۔ عدالت نے اپیل منظور کر معاملے کو باقاعدہ سماعت کیلئے چھوڑدیا ہے۔ طے قواعد کے تحت اگر سماعت لگاتار ہوئی تو یہ معاملہ 5 سے7 برس بعد سماعت کے لئے آسکتا ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ مرکزی سرکاری، دہلی سرکار و دہلی پولیس معاملے کی جلد سماعت کیلئے عرضی لگاتی تو ممکن ہے کہ سپریم کورٹ میں اب تک معاملے کا نپٹارہ ہوجاتا لیکن کسی نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اگر معاملے کا جلد نپٹارہ ہوجاتا تو توقع تھی کہ ملزمان کو پھانسی ہوجاتی۔ ایسا ہوتا تو دوسروں کو بھی سبق ملتا۔ ان کے دل میں بھی ڈر بیٹھتا۔ جب تک ایسے مقدمات کو فاسٹ ٹریک طریقے سے نپٹارہ نہیں ہوتا یہ درندگی رکنے والی نہیں۔ ہم دہلی کے وزیر اعلی کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟