’رہسہ‘ اور’ تلوار‘ ایک ہی قتل کانڈ پر دو برعکس فلمیں

پچھلے دنوں میں نے دو ایسی ہندی فلمیں دیکھیں جو ایک سچے واقعے پر مبنی ہیں۔ کچھ سال پہلے نوئیڈا میں ایک دوہرے قتل کی واردات ہوئی تھی جس میں ایک بچی اور اسی کے گھریلو نوکر کا قتل ہوا تھا۔ اس پر بنی میں نے دونوں فلمیں دیکھیں (رہسہ اور تلوار) کے ۔ کے ۔مینن اور ٹسکا چوپڑہ اسٹارر ’رہسہ‘ بھی اسی قتل کانڈ پر بنی ہے اور اب میگھنا گلزار کی فلم ’’تلوار‘‘ جس میں عرفان خان اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ 7 سال پہلے ہوئی دل دہلانے والے وارادت کے نتیجے پر تنازعہ آج بھی برقرار ہے۔ ’تلوار‘ فلم میں دکھائے گئے واقعات کو پردے پر میگھنا گلزار نے ایسے زوردار ڈھنگ سے پیش کیا ہے جسے دیکھنے کے بعد آروشی قتل کیس کی پولیسیا جانچ اور جانچ میں اعلی افسر شاہی کا دباؤ سرکاری ایجنسیوں کا آپسی ٹکراؤ اور وقار کی لڑائی کولیکر ایسی بحث شروع ہوتی ہے جو شو ختم ہونے کے بعد اکثر مال میں کسی ریستوراں میں لمبے وقت تک چلتی ہے۔ ساکیت کالونی میں اپنے شوہر کے ساتھ ’تلوار‘ فلم دیکھنے آئی ایک خاتون جو تعلیم یافتہ ہاؤس وائف ہیں، کہتی ہیں کہ میں نے اس سے پہلے نوئیڈا میں ہوئے دوہرے قتل کانڈ کے پس منظر میں بنی کے ۔ کے مینن اور ٹسکا چوپڑا اسٹارر فلم ’رہسہ‘ بھی دیکھی تھی، لیکن 7 سال پہلے ہوئی دل دہلانے والی اس واردات نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
خاتون کے مطابق ا س معاملے کی ابتدائی پولیس جانچ رپورٹ میڈیا میں آنے کے بعد میں نے اپنے گھریلو نوکر کو ہٹا دیا تھا لیکن ’تلوار‘ دیکھنے کے بعد مجھے لگ رہا ہے کہ میں نے اس وقت غلطی کی تھی۔انہوں نے کہا ہمیشہ اخباروں میں پولیس اور سی بی آئی جانچ رپورٹ کے بارے میں پڑھا تھا لیکن وہاں معاملہ فلم میں ایک دم مختلف تھا۔ ’رہسہ‘ فلم میں قاتل بچی کی ماں کو دکھایا گیا ہے جبکہ ’تلوار‘ فلم میں ماں باپ بے قصور ہیں اور نوکر کے دوست قاتل تھے اور دونوں فلموں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ابھی معاملہ عدالت میں جاری ہے۔ ماں باپ جیل میں بند ہیں اور یہ فلم والوں نے اپنی طرف سے معاملے کو حل بھی کرلیا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کیا ان فلموں کا عدالتی کارروائی پر اثر نہیں پڑے گا؟ ’تلوار‘ فلم میں تو ماں باپ بے قصور دکھائے گئے ہیں جنہیں زبردستی پھنسایا جارہا ہے۔ یوپی پولیس اور سی بی آئی کی تفتیش میں کتنا فرق ہے یہ بھی باریکی سے دکھایا گیا ہے۔ کون صحیح ہے کون نہیں اس کا فیصلہ تو عدالت کا کام ہے لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ عدالت کے سامنے بھی اس کیس کو سلجھانے کی چنوتی کم نہیں ہے۔ پتہ نہیں اس 14 سالہ بچی اور گھریلو نوکر قتل کانڈ میں اصل کیا ہوا اس پر موثر ڈھنگ سے پردہ اٹھے گا بھی یا نہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟