سی بی آئی کی ساکھ اور بھروسہ

یہ پہلی بار نہیں جب کسی عدالت نے ثبوت کی کمی میں کسی کو الزامات سے بری کیا ہو، لیکن فاضل اسپیکٹرم الاٹمنٹ کے مبینہ گھوٹالے میں شامل قرار دئے گئے سابق ٹیلی کام سکریٹری ایمل گھوش کو الزام سے بری کرتے ہوئے سی بی آئی کی اسپیشل عدالت نے جس طرح سے سی بی آئی کو پھٹکار لگائی وہ کئی سنگین سوال ضرور کھڑے کرتی ہے۔ عدالت ہذا نے ملزمان کو بری کرتے ہوئے سی بی آئی کی چارج شیٹ کو جھوٹا قراردیا اور اس کے لئے ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ عدالت نے گھوش اور ٹیلی کام کمپنیوں کو بری کرتے ہوئے کہا کہ ان الزامات کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اور اس کے پیش نظر انہیں الزام سے بری کیا جانا چاہئے۔ اسپیشل سی بی آئی عدالت نے جانچ ایجنسی کو جھوٹی اور گھٹیا فرد جرم داخل کرنے کے لئے بھی کڑی پھٹکار لگائی۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ عدالت کے حکم کی تعمیل کب تک اور کس شکل میں ہوگی، لیکن یہ ضرور صاف ہورہا ہے کہ یو پی اے سرکار کے دور میں سی بی آئی کرپشن کی جانچ کے بجائے منمانی کرنے اور یہاں تک کہ عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا بھی کام کررہی تھی۔ہندوستانی سیاست میں حریف پارٹی یا نیتا کو پھنسانے یا بدنام کرنے کی کیسی کیسی سازشیں رچی جاتی ہیں، کس طرح گمراہ کن پروپگنڈہ کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ کچھ فیصلوں اور ریمارکس سے بھی ظاہرہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان سبھی معاملوں میں سازش کرنے کا الزام کانگریس پارٹی پر لگتا ہے۔ اس میں پہلا معاملہ ٹو جی گھوٹالے سے وابستہ ہے جس پر جمعرات کو فیصلہ دیتے ہوئے عزت مآب سپریم کورٹ نے نہ صرف سبھی ملزموں کو بری کردیا بلکہ جانچ ایجنسی سی بی آئی کے رول پربھی باقاعدہ ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے تفتیش سے وابستہ حکام پر کارروائی کرنے کو کہا ہے۔ اس میں سورگیہ بھاجپاکے اس وقت کے ٹیلی کام وزیر پرمود مہاجن کو بھی بدنام کیا گیا۔ دوسرا معاملہ گجرات کے سابق آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ سے وابستہ ہے۔ اس سے جڑے معاملے کی جانچ کی نگرانی سپریم کورٹ کے ذریعے کرانے کی مانگ کو لیکر پیش سنجیو بھٹ کی عرضی بڑی عدالت نے نہ صرف خارج کردی بلکہ ان کی نیت اور طور طریقے پر بھی بہت سخت رائے زنی کی۔ عدالت نے یہاں تک کہا کہ سنجیو بھٹ اپوزیشن کانگریس، این جی او اور میڈیا کے کچھ لوگوں سے ملے ہوئے تھے۔ تیسرا معاملہ بدنام زمانہ تابوت گھوٹالہ رہا اور یہ این ڈی اے کی ایک حکومت سے جڑا ہے۔ تب اس معاملے نے اتنا طول پکڑا تھا کہ وزیر دفاع جارج فرنانڈیز کو استعفیٰ دینا پڑا تھا لیکن اب سی بی آئی اور سپریم کورٹ کے ذریعے صاف کیا گیا ہے کہ تابوت خرید میں کوئی بے قاعدگی نہیں برتی گئی۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ زندگی بھر سادگی اور ایمانداری کے لئے جانے جانے والے جارج فرنانڈیز اس وقت جسمانی طور پر اس حالت میں نہیں ہیں کہ وہ خود پر لگائے گئے اس داغ کو دھونے پر کوئی رد عمل ظاہر کرسکیں۔ سی بی آئی کی ساکھ اور بھروسے پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟