ریاستوں میں حصے داری بڑھا کر مودی نے مثبت قدم اٹھایا

وزیر اعظم نریندر مودی نے یقینی دہانی کے مطابق ہے 14 ویں فائننس کمیشن کی سفارشیں منظور کرتے ہوئے مرکزی ٹیکسوں میں راجیوں کی حصے داری 10 فیصدی بڑھا کر42 فیصدی کرکے مرکزی سرکار نے تعاون کی جانب ایک اور قدم بڑھایا ہے۔ یہ اس لئے ممکن ہوسکا کیونکہ وزیر اعظم خود گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر مرکز کی اس معاملے میں نا انصافی برداشت کرتے رہے ہیں۔جب وہ گجرات کے وزیر اعلی تھے تو اکثر مرکزی سرکار کے ذریعے راجیوں کو دباؤ میں لانے کے لئے ان کو مرکزی ٹیکسوں میں حصے داری صحیح سے نہیں دیتی تھی۔ یوپی اے سرکار نے راجیوں کی سرکاروں کو ایک طرح سے بلیک میلنگ کا اسے ہتھیار بنایا ہوا تھا۔ ذرائع کے ٹرانسفر کے نئے انتظام میں راجیوں کو مالی سال2015-16 میں 1.78 لاکھ کروڑ روپے زائد ملیں گے۔ مودی سرکار کا یہ قدم سابق سرکاروں کی سوچ اور طریق�ۂ کار سے ایک دم مختلف دکھ رہا ہے۔ جس کا پورا زور ذرائع پر کنڈلی مار کر بیٹھے رہنا اور پھر برسر اقتدار پارٹی اور پارٹیوں کی سیاسی سہولتوں کے مطابق چن چن کر ریوڑیاں بانٹنا رہتا تھا۔ اس سے راجیوں میں نہ صرف ناراضگی بڑھتی تھی بلکہ کچھ حد تک راجیوں کی ترقی بھی متاثر ہوتی تھی۔ ترقی کے پیمانوں پر علاقائی نا برابری کا جوکھم بھی کھڑا ہوتا ہے۔ ویسے یہ 10 فیصدی اضافے کے ساتھ ساتھ کچھ شرطیں بھی لا دی گئی ہیں۔ مرکزی وزارت مال نے کہا ہے کہ ریونیو گھاٹا اٹھانے والے کچھ راجیوں کو زیادہ انودان تبھی ملے گاجبکہ وہ مرکز کی شرطوں کو مانیں گے۔ اس کا تذکرہ چودھویں فائننس کمیشن کی رپورٹ میں ہے اور سرکار نے اس پر جو مزید رپورٹ دی ہے اس کے مطابق ان سفارشوں کو حقیقی طور پر مان لیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریونیو گھاٹے والی ریاستوں کو یہ انودان تبھی ملے گا جبکہ وہ ریونیو بڑھانے اور مالیات میں اضافہ کرنے کے لئے اقدامات پر عمل کریں گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلے دن ہی راجیوں اور مرکز کے درمیان تعاون پر مبنی رشتوں کی پیروی کی اور راجیوں کو ہر طرح سے مضبوط کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔وزیر اعظم اس وچار کے ہیں کہ اگر راجیہ مضبوط ہوں گے تو دیش مضبوط ہوگا۔ جہاں تک راجیوں کے وکاس کی بات ہے تو یہ بہت حد تک راجیوں کے وزیر اعلی پر منحصر ہے کہ وہ پیسوں کا کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ ان کی اولیت کیا ہے؟ وزیر اعظم نے سیاسی اختلافات کو بھول کر وزرائے اعلی کے ساتھ ٹیم کے طور پر کام کرنے کا سجھاؤ رکھا ہے اور اس پر عمل بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی جذبات مودی سرکار کے بجٹ میں بھی نظر آئے۔ یوپی اے کے دور میں اپوزیشن سرکاروں کو ان کے جائز حق سے محروم رکھا جاتا تھا اور اپنی پارٹی کی راجیہ سرکاروں سے خاص رشتے رکھے جاتے تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اسے بدلنے کی کوشش کی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟