بہت گہری ہیں جاسوسی کی جڑیں!

جس انہونی کا اندیشہ تھا وہ صحیح نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ مرکزی وزارتوں سے حساس ترین معلومات کی چوری جتنی چونکانے والی ہے اس سے بھی زیادہ چونکانے والی معلومات یہ ہے کہ جاسوسوں کے گروہ صرف وزارت توانائی کے دفتر سے خبریں نہیں چرا رہے تھے بلکہ دیش کی وزارت دفاع تک یہ زہریلے ہاتھ پہنچنے لگے ہیں۔تیل، کوئلہ، بجلی وزارت یہاں تک کہ وزارت مالیات تک ان کی پہنچ رہی ہے۔ ان کے پاس وزیر مالیات کی بجٹ تقریر میں شامل ہونے والے کچھ معاملات سے وابستہ ان پٹ تک پائے گئے ہیں۔ خفیہ سرکاری دستاویزات کی چوری اور جاسوسی نئی بات بیشک نہ ہو، لیکن وزیر اعظم کے دفتر، کیبنٹ وزیر، سیکریٹری اور جوائنٹ سکریٹریوں کے مابین ہونے والی خط و کتابت کی زیروکس کاپیاں وزارت کے چھوٹے ملازمین کے ذریعے کنسلٹینسی کمپنیوں اور وہاں سے بڑی کمپنیوں کے حکام تک مسلسل پہنچنے کا تصور بھی حیران کردینے والا ہے۔ تیل، کوئلہ اور بجلی وزارت پر منڈراتے جاسوسوں کے کالے سائے اگر کارپوریٹ گھرانوں کی منافع خوری کی ہوس کا قصہ کھول رہے تھے تب اس عمارت میں ہوئی گھس پیٹھ کی کہانی کیا ہوگی جہاں دیش کو دشمنوں سے بچائے رکھنے کی حکمت عملی بنا کرتی ہے۔ وزارت توانائی سے اگر تمام حساس ترین دستاویزات پی ایم او پہنچنے سے پہلے ان جاسوسوں کے قبضے میں موجود ہوجاتے تھے تب ہماری ڈیفنس حکمت عملی اس کالی سرنگ کے ساتھ راستے کہاں تک اور کن ہاتھوں تک پہنچ رہی ہوگی، اس کے تصور سے ہی کپکپی آجاتی ہے۔ مرکزی سرکار کے سب سے محفوظ اور انتہائی حساس ترین چار وزارتوں پر جاسوسی کا جال دیش کی قابل رحم سکیورٹی نظام کی پول کھول رہا ہے۔دہلی پولیس نے جس کانڈ کو بے نقاب کیا وہ دو خاص وجوہات سے چونکاتا ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ سب برسوں سے چل رہا تھا۔ دوسرے اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس معاملے کو کارپوریٹ جاسوسی کانڈ بھی کہا جاسکتا ہے۔ دہلی پولیس کی کرائم برانچ کی کارروائی سے جو سنسنی خیز حقیقت سامنے آئی ہے اس نے بہت سے سوال کھڑے کردئے ہیں۔ کئی وزارتوں کی فائلوں کی چوری کی وارداتوں نے سرکاری کام کاج کے بھروسے کو اعلی سطح پر ایسا نقصان پہنچا یا ہے جس کی دوسری مثال شاید ہی ملے۔ برسوں سے یہ گورکھ دھندہ چلتا رہا، تو اس کے پیچھے صرف نگرانی میں چوک ہی نہیں بلکہ یہ کارروائی کے لئے قوت ارادی کی کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے لائق تحسین کام کیا ہے، لیکن اس کی جانچ سی بی آئی کو سونپنے پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ یہ مان لینا نہایت بھولا پن ہوگا کہ سرکار کی ناک کے نیچے سارا کھیل صرف کچھ بچولئے اور کچھ ادنیٰ ملازمین کا تھا۔ کوئی چپڑاسی یا کلرک کیسے یہ جان سکتا ہے کہ وزارت کی کس فائل میں کیا ہے اور وزیر مالیات کی بجٹ تقریر کے کس حصے کو چراکر لانے سے منہ مانگی قیمت ملے گی؟ ظاہر ہے وزارت کے سینئر واقف کاروں کے آشیرواد کے بنا یہ ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح صحافت کی آڑ میں جاسوسی کرنے والے اورانرجی کنسلٹینسی کو دھوکے کی نقاب پہنانے والے اس کرتوت گری میں معمولی بچولئے سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ کم و بیش یہ ہی رول پکڑے گئے چند کارپوریٹ گھرانوں کے افسران کا لگتا بھی ہے۔ اصل کھلاڑی تو کہیں دور بیٹھے اس گڑ بڑجھالے سے جڑے اپنے روابط جالوں کو تباہ کرنے میں لگے ہوں گے۔ مودی سرکار سے دیش کی توقعات ہے کہ وہ ان مگر مچھوں کے شکار میں جٹے گی۔ کارپوریٹ دنیا اور میڈیا کو بھی اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کی پڑتال ضرور کرنی چاہئے۔ کہتے ہیں نہ ایک سڑی مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے اور یہ توبدبو پھیلاتی مچھلیوں کی پوری بارات ہی دکھائی دے رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟