مایاوتی ’’دلت ‘‘کی نہیں ’’دولت‘‘ کی بیٹی!

بہوجن سماج پارٹی میں ان دنوں حاشیے پر ڈالے گئے کبھی مایاوتی کے بیحد بھروسے مند افراد میں شمار جگل کشور نے بہن جی پر پیسہ لیکر ٹکٹ دینے کا الزام لگایا ہے۔بسپا سے سبھی طرح کی ذمہ داریوں سے ہٹاتے ہی راجیہ سبھاایم پی جگل کشور نے پارٹی کی چیف کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ مایا دلت کی نہیں دولت کی بیٹی ہے۔ پارٹی میں کوئی کام بغیر پیسے کے نہیں ہوتا۔ چناؤ میں ٹکٹ بھی جیب ڈھیلی کرنے پر ہی ملتا ہے جیسا امیدوار ویسی قیمت۔ اسمبلی چناؤکیلئے 50 لاکھ سے 2 کروڑ روپے تک لئے جاتے ہیں۔جگل کشور کا کہنا ہے میں نے اس وصولی کی مخالفت کی تو مجھے پارٹی کی تمام ذمہ داریوں سے آزادکردیا گیا۔ مایاوتی کی برادری سے تعلق رکھنے والے جگل کشور کی اہمیت اسی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ وہ بہار اور دہلی کے انچارج ہوا کرتے تھے۔ اس سے پہلے وہ گورکھپور، فیز آباد، دیوی پاٹن اور بستی منڈل کے چیف کو آرڈینیٹر بھی رہے ہیں۔ حالانکہ لوک سبھا چناؤ سے ٹھیک پہلے ان سے یہ ذمہ داری چھین لی گئی تھی۔ جگل کشور کے اس الزام کے جواب میں بہن جی نے کہا جگل کشور اپنے بیٹے کیلئے اسمبلی کا ٹکٹ مانگ رہے تھے۔ میں نے طے کیا ہوا ہے پارٹی میں کنبہ پرستی نہیں چلے گی۔ انہیں منع کیا گیاتو پارٹی مخالف سرگرمیوں میں لگ گئے۔وہ اپنا راستہ الگ اپنارہے ہیں۔ اب ان سے کوئی بات نہیں کرے گا۔ یہ بات مایاوتی نے ایتوار کو پارٹی کے عہدیداران کی میٹنگ میں کہی تھی۔ مئی میں بسپا کے مشرقی اترپردیش کے زونل کوآرڈینیٹر عہدے سے اور سنیچر کو دہلی اور بہار کے پارٹی انچارج کے عہدے سے ہٹائے گئے جگل کشور نے یہ بھی دعوی کیا اگر منصفانہ جانچ ہو تو بسپا کے کئی ممبر اسمبلی مایاوتی کے ذریعے ٹکٹ بیچے جانے کی گواہی دے کر انہیں بے نقاب کرسکتے ہیں۔ مایاوتی کو دنیا کی سب سے امیر ترین سیاستداں بتاتے ہوئے کشور نے کہا پچھلے کچھ عرصے سے ’’دلت مشن‘‘ کو کنارے کر کے ’’منی مشن‘‘ شروع کردیا گیا ہے۔لکھنؤ، نوئیڈا اور دہلی میں بہوجن پریرنا کیندروں کے قیام میں بڑے پیمانے پر گڑبڑیوں کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ دلتوں کے خون پسینے کی کمائی سے بنے ان کیندروں کو بعد میں ٹرسٹ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ خود مایاوتی اور ان کے بھائی آ نند اور قریبی وفادار ستیش چندر مشر اس کے ٹرسٹی بن گئے ہیں۔مایاوتی پر پہلے بھی ایسے الزامات لگتے رہے ہیں۔ ویسے بسپا اکیلی نہیں ہے جس پر ٹکٹوں کو فروخت کرنے کا الزام لگا ہے۔ دونوں کانگریس اور بھاجپا پر بھی ایسے ہی الزام لگے ہیں۔ ہندوستان کی سیاست میں اب پیسے کا دبدبہ بڑھ چکا ہے۔ بغیر پیسے کے اب کچھ نہیں ہوتا۔ بسپا پچھلے کچھ دنوں سے ہندوستان کی سیاست میں تھوڑا حاشیے پر چلی گئی ہے۔ مایاوتی سے پارٹی کے ایم پی اور سابق ایم پی اب سنبھل نہیں پا رہے ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی کو نئے سرے سے اپنے ووٹ بینک کو جوڑنے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی تاکہ اترپردیش کے اگلے اسمبلی چناؤ میں وہ ایک سیاسی طاقت کی شکل میں ابھر سکے۔
(انل نریند)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟