پینسٹھ سالہ ’’یوجنا آیوگ‘‘ اب ’’نیتی آیوگ‘‘!

پچھلے65 سال سے تنازعات میں رہے یوجنا آیوگ کی وداعی کا فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے اعلان کے ساتھ ہی کردیا تھا۔ اس لئے یوجنا آیوگ (پلاننگ کمیشن)کے خاتمے کے بارے میں کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مارچ1950 ء میں تشکیل پلاننگ کمیشن نے ابتدائی دہائیوں میںیقینی طور پر بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی ترقی کے اشوپر بہتر کام کیا لیکن اپنے قیام کے کچھ بحران دور میں وہ اپنی اہمیت کو گنوانے لگا تھا۔ وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو اس کے قیام کا احساس اس وقت کے سوویت یونین کی پانچسالہ پلاننگ سسٹم سے ہوا تھا۔لیکن نہرو کے زمانے میں محض پلان بنانے کی ذمہ داری ہی اس کمیشن کو ملی تھی۔اس ادارے نے اپنے قیام کے بعد کافی برسوں تک ایسے اہم ایجنڈے کو لیکر بلندی کی اونچائیاں چھوئیں ۔ یہ مرکزی حکومت کی وزارتوں اور ریاستوں تک فنڈ مختص کرنے اور فراہم کرنے والا ایک طاقتور ادارہ بن گیا۔ ریاستوں کے وزرائے اعلی اس کے دروازے پر دستک پر دستک دیتے رہنا عام ٹرینڈ بن گیا تھا۔ یوجنا آیوگ ریاستوں پر ایک یکساں مرکزی حکمرانی کی طرح کنٹرول کر رہا تھا اور اس کی پالیسیوں اور پلاننگ کو متاثر کررہاتھا۔ بھارت کے فیڈرل سسٹم میں ریاستوں کا اہم رول ہوتا ہے مگر حالت یہ تھی کہ منتخب وزرائے اعلی تک کو اپنی ریاستوں کے مفادات کے لئے پلاننگ کمیشن کے سامنے سر خم کرنا پڑتا تھا۔بیشک یوجنا آیوگ نے 12 ویں پنچسالہ منصوبے پر وقت کے ساتھ ساتھ اس کے طور طریقے میں بھی تبدیلی نہیں کی گئی بلکہ حالت یہ ہوگئی تھی کہ مرکز اور ریاستوں کے درمیان آپسی ٹکراؤ کا سبب بن گیا تھا۔ یوجنا آیوگ (پلاننگ کمیشن) کا نام بھی وزیر اعظم نے بدل دیا ہے۔ اب اس کا نام نیشنل انسٹی ٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا(نیتی آیوگ) نام کے اس ادارے میں مختلف سیکٹروں سے پانچ ماہرین ممبر ہوں گے۔ چار مرکزی وزرا بھی اس میں شامل ہوں گے۔ بہرحال دیکھنے کا اصلی اشو یہ ہے کہ نئے ادارے کے وجود میں آنے سے اس کے طریقہ کار اور ترقی کی سمت میں کیا فرق دکھائی پڑتا ہے؟ نئے ادارے کو شکل دینے کے اشو پر پچھلے مہینے وزرائے اعلی کے ساتھ میٹنگ میں وزیر اعظم نے ٹیم انڈیا کے جذبے پرزوردیا۔ نریندرمودی کی یہ بات وزیر اعلی کو بہت بھا گئی کہ ترقیاتی اسکیمیں بنانے میں ریاستوں کو زیادہ رول ملنا چاہئے۔ اس کے باوجود نئے ادارے کے ڈھانچے اور دائرہ کار کو لیکر وزرائے اعلی میں رضامندی نہیں بن پائی تھی۔ کئی اپوزیشن وزرائے اعلی چاہتے تھے کہ یوجنا آیوگ ختم کرنے کے بجائے اس کے دائرہ کار اور طریقہ کار میں تبدیلی لائی جائے۔ نتیجتاً نیتی آیوگ کا آغاز تنازعات کے بیچ ہی ہورہا ہے۔ اس کے چیئرمین جہاں وزیر اعظم خود ہوں گے وہیں اس کے وائس چیئرمین کے لئے دنیا میں ماہراقتصادیات کو تلاش کیا جارہا ہے۔مودی کی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر ریاست کو اپنی خاص دشواریوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور ترقی کا ایک خاکہ ہر کسی کو راس آجائے یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لئے نیتی آیوگ میں ہر ریاست کی نمائندگی اور اس کے پیچیدہ مسائل کو الگ طریقے سے حل کرنے کے اقدام اٹھائے گا۔ نیتی آیوگ میں ٹیم انڈیا کی جھلک تو ملتی ہے لیکن صرف نام بدلا ہے یا کام کا انداز بھی۔۔۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!