کول بلاک الاٹمنٹ گھوٹالے میں منموہن سنگھ سے پوچھ تاچھ!

کول بلاک الاٹمنٹ گھوٹالہ سامنے آنے کے بعد یوپی اے سرکار کے چلے جانے کے بعد سی بی آئی نے ا س معاملے میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ ان سے’’ ہنڈالکو‘‘ کمپنی کو کول بلاک الاٹمنٹ کئے جانے کے بارے میں معلومات کی گئیں۔16 دسمبر کو سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سی بی آئی کی ایک ٹیم نے منموہن سنگھ سے ان کی رہائش گاہ پر پوچھ تاچھ کی۔ سی بی آئی کو اس معاملے میں27 جنوری کو خصوصی عدالت میں اپنی اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنی ہے۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کوئلہ گھوٹالے اجاگر ہونے کے بعد ’ہزاروں جوابوں سے اچھی ہے میری خاموشی‘ جیسا جملہ کہہ کر بچ نکلنے والے منموہن سنگھ اب سی بی آئی کے سوالوں کے دائرے میں آگئے ہیں۔ حالانکہ اس خبر کی تصدیق نہ تو ان کی طرف سے اور نہ ہی سی بی آئی کی طرف سے ہوئی ہے لیکن اس معاملے میں کسی طرح کی تردید نہ آنے سے اس معاملے کو تقویت ملتی ہے کہ ان سے پوچھ تاچھ ہوئی ہے یہ مبینہ جانچ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی عوامی زندگی پر داغ لگانے والی ہے۔ کوئلہ وزیر کی شکل میں ان کے کردار کو لیکر پوچھ تاچھ کی گئی تھی جس میں آدتیہ برلا کی کمپنی ’ہنڈالکو‘ کو کول بلاک الاٹمنٹ میں گڑ بڑی کے معاملے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ حالانکہ منموہن سنگھ کی ساکھ صاف ستھری اور شریف لیڈر کی رہی ہے لیکن ان کی قیادت میں یوپی اے کے عہد اور خاص کر ان کا دوسرا ٹرم گھوٹالوں کے نام سے جانا جاتا رہا جس پر گھوٹالے کی سیاہی نہ لگی ہو، کوئلہ گھوٹالوں میں یہ عجب اتفاق ہے کہ اس کے کئی معاملے اس وقت کے ہیں جب منموہن سنگھ ہی کوئلہ وزارت کے انچارج ہوا کرتے تھے۔ اس طرح منموہن سنگھ دوسرے سابق وزیر اعظم ہیں جن سے گھوٹالے کی پوچھ تاچھ ہوئی ہے۔یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اس شرمندگی سے گزرنے والے سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ بھی تھے جو منموہن سنگھ کے سیاسی گورو مانے جاتے ہیں اب یہ انکشاف ہونے کی امید ہے کہ جس وقت منموہن سنگھ کوئلہ وزارت کے انچارج تھے کیسے دیش کے بیش قیمتی وسائل کی بندر بانٹ ہوتی رہی ہے اور اسے روکنے کیلئے منموہن سنگھ جی نے کوئی مداخلت کیوں نہیں دی؟ ویسے تو یہ سوال تبھی اٹھنے لگے تھے جب یوپی اے اقتدار میں تھی لیکن تب سرکاری طوطے سی بی آئی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے اس وقت کے آقاؤں سے آسانی سے سوال جواب کر پاتی۔ الٹے معاملے کو بند کرانے کی اس کی جلد بازی پر سپریم کورٹ نے تلخ تبصرہ کرڈالا۔ منموہن سنگھ کے پورے عہد میں جس طرح فیصلوں پر کانگریس لیڈر شپ کا کنٹرول تھا اس میں منموہن سنگھ کا رول تو بہت ہی برائے نام رہا ہوگا۔ شاید اس لئے منموہن سنگھ نے اپنے عہد کا زیادہ تر حصہ خاموش رہ کر ہی کاٹا۔ بہرحال اب سی بی آئی ان سے پوچھ تاچھ کر چکی ہے تو امید ہے کہ کئی سوالوں کا تشفی بخش جواب آنے والے دنوں میں دیش کو ملے گا۔ مستقبل میں ایسے گھوٹالے نہ ہوں اس کیلئے بھی پیغام دینا ضروری ہے کہ جوابدہی کے دائرے سے کوئی باہر نہیں ہے یہاں تک کہ پردھان منتری بھی نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟