ٹائیگروں کا بڑھتا کنبہ اچھی خبر!

پچھلے کافی عرصے سے شیروں کی گھٹتی تعداد باعث تشویش بنی ہوئی تھی۔ دیش میں سمٹتے جنگلوں کے درمیان ٹائیگروں کی دھاڑ بہت ہی کم سنائی پڑتی تھی۔ خاص کر2008 میں جب بھارت میں صرف 1400 شیر یعنی ٹائیگر بچے تھے تب ان کے وجود پر ہی بحران منڈرانے لگا تھا۔ ٹائیگروں کے تحفظ کے لئے 1973 میں بھارت حکومت نے پروجیکٹ ٹائیگر نام سے پروگرام شروع کیا تھا اس کے تحت دیش کی 18 ریاستوں میں اس وقت 47 ٹائیگر ریزرو ہیں۔ یہ دیش کی کل جغرافیائی حدود اربعہ کا 2.08 فیصدی حصہ ہے۔ دنیا کے70 فیصد ٹائیگر اکیلے بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ پچھلی صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں تقریباً1 لاکھ ٹائیگر ہوا کرتے تھے اس آبادی کا 97 فیصد حصہ ختم ہوگیا ہے اب یہ تعداد تین چار ہزار کے درمیان ہی رہ گئی ہے۔ جنگلاتی جانوروں کے شائقین کے لئے 2015ء بڑی خوشخبری لیکر آیا ہے۔ 2010 سے2014 تک دیش بھر میں ٹائیگر کی تعداد میں 30.5فیصد اضافہ ہوا ہے۔2010 میں ٹائیگروں کی تعداد 1706 تھی جو 2014 میں بڑھ کر 2226 ہوگئی ہے۔ 2006 میں یہ اعدادو شمار محض1411 ہوا کرتے تھے۔ منگل کے روز نئی دہلی میں مرکزی وزیر جنگلات ماحولیات پرکاش جاوڑیکر نے ایک پروگرام میں قومی ٹائیگر تحفظ اتھارٹی کی اسٹیٹس آف ٹائیگرز ان انڈیا رپورٹ 2014ء جاری کی تھی۔ اس کے مطابق دیش کی 18 ریاستوں میں ٹائیگر ہیں ان میں کرناٹک، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، تاملناڈو اور کیرل میں ٹائیگروں کی تعداد بڑھی ہے۔ سال2010ء میں 300 ٹائیگروں کے ساتھ کرناٹک پہلے مقام پر تھا۔ ان کی بڑھتی تعدادسے جس طرح کی تفصیل سامنے آئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں ٹائیگروں کے تحفظ کے لئے چلائے گئے پروگراموں یا مہموں کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ دراصل گزری دو تین دہائی کے دوران ٹائیگر کی گنتی مسلسل کم ہوتی چلی گئی تھی اور شکار کے ساتھ ساتھ جنگل بھی گھٹتے چلے گئے۔ کئی اسباب سے جنگل کے راجا کی زندگی پر بحران کھڑا ہورہا تھا۔ خاص طور سے سرسکا، رنتھمبور وغیرہ ٹائیگر ریزرو سے ٹائیگر کے غائب ہونے کی خبریں آرہیں تھیں۔ تشویشناک حالات کے سامنے آنے کے بعد حکومت کی طرف سے ٹائیگر تحفظ کیلئے ایک ٹاسک فورس بنانے پڑی جس نے کئی قدم اٹھائے اور ٹائیگر بچانے کی تمام کوششیں اور پروگراموں کے درمیان دیش میں محفوظ گلیاروں اور جنگلاتی علاقوں پر منڈراتے خطرے پر اور بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تازہ کارنامہ ماحولیات و جنگلاتی جانور اور ٹائیگروں کی زندگی پر کام کرنے والے لوگوں کیلئے اس لئے بھی راحت والی خبر ہے کہ جب دنیا بھر میں اس جانور کی تعداد تیزی سے گھٹی ہے وہیں بھارت میں یہ تعداد بڑھی ہے۔ اس کامیابی کا سہرہ جنگلاتی حکام اور ملازمین اور فرقہ وارانہ سانجھے داری اور آئینی نظریئے کے مطابق اس مسئلے پر کام کرنے والے تمام لوگوں اور ایجنسیوں کو دینا ہوگا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان اقدامات پر عمل کرکے یہ کارنامہ قائم رکھا جائے اور ٹائیگروں کی تعداد بڑھتی رہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟