عیسائیوں کے سپریم پیشوا پوپ فرانسس کے لائق تحسین خیالات!

کیتھولک عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے اپنے ایشیائی دورے کے دوران سری لنکا اور منیلا میں اپنے خطابات میں کہا سماج میں مذہبی کٹرتا ،کرپشن اور ناانصافی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اس کی پوری ذمہ داری پالیسی سازوں اور حکمرانوں کی بنتی ہے۔ صحافیوں سے مخاطب پوپ فرانسس نے فرانسیسی میگزین ’’شارلی ہیبدو‘‘ پر ہوئے آتنکی حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا اظہار آزادی ضروری ہے لیکن اس کی آڑ میں دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور انہیں بھڑکانا غلط ہے۔ ایسا ہونے پر اس کیلئے سخت رد عمل جھیلنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا مذہبی آزادی اور اظہار آزادی ہر کسی کا بنیادی حق ہے لیکن اس حق کے ساتھ یہ بھی فرض وابستہ ہے کہ ایسا کچھ بھی کرتے وقت یہ خیال رکھنا جانا چاہئے کہ اس سے کسی کو ٹھیس نہ پہنچے بلکہ اس میں سب کی بھلائی شامل حال ہو۔ پوپ نے یہ کہہ کر بھی صاف اشارہ دے دیا کہ میگزین میں پیغمبر حضرت محمدؐ کا کارٹون چھاپا جانا صحیح نہیں تھا۔ پوپ نے منیلا پہنچ کر یہاں کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو غریبوں کے خلاف ہورہی ناانصافی ،مظالم اور کچلنے والی پالیسیوں کے خلاف آگاہ کرتے ہوئے کہا ان کی وجہ سے ہی سماج میں زبردست نابرابری کا احساس پیدا ہورہا ہے جس کے نتیجے تشدد اور غصے کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔پوپ فرانسس نے کہا حکمرانوں اور منتظمین کو پوری سمجھداری اور ایمانداری کے ساتھ عوام ، خاص کر غریب طبقے کے لوگوں کے لئے کام کرنا چاہئے۔ کرپشن کوجڑ سے ختم کیا جانا چاہئے۔ امریکہ نے پوپ کے تبصرے پر نپا تلا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان زورش آرنیسٹ نے توجہ دلائی ہے کہ اظہار آزادی کے ساتھ ساتھ ذمہ داری بھی جڑی ہوتی ہے اور اظہار آزادی پر نا اتفاقی کو لیکر تشدد کو کسی بھی طرح جائز نہیں مانا جاسکتا۔ ان کا کہنا ہے اظہار آزادی کے سلسلے میں عوامی اظہار آزادی کا کوئی فرض نہیں ہے جو تشدد اور کارروائی کو کسی بھی طرح سے مناسب ٹھہرا سکتا ہو۔ 
جیسا یہ ایک اصول ہے جسے ہم نے کئی موقعوں پر دوہرایا ہے جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل نے فرانس میں ہوئے حملے کے بعد مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کئے جانے کے خلاف مضبوطی کے ساتھ اپنی آواز اٹھائی لیکن ساتھ ہی کہا کہ اسلامی مذہبی پیشواؤں کو اسلام اور دہشت گردی کے بیچ واضح لائن کھینچنی چاہئے۔ مارکل میں آتنک وادی حملے میں مارے گئے17 لوگوں کو جرمن پارلیمنٹ میں خراج عقیدت پیش کئے جانے کے بعد یہ بات کہی۔ ہم پوپ فرانسس کے خیالات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہمارا بھی ہمیشہ خیال رہا ہے کہ آپ کسی بھی مذہب یا مذہبی رسم و رواج و روایات کا مذاق نہیں اڑا سکتے۔ ہم سبھی کو سبھی مذہبوں کا احترام کرنا چاہئے۔ مذہب کبھی بھی تشدد نہیں سکھاتا۔ اگر غلط ہورہا ہے تو مذہب کے ان ٹھیکیداروں کی وجہ سے ہورہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟