صدر کی نیک نصیحت ، آرڈیننس سے بچیں!

مودی حکومت کے8 ماہ کے عہد میں ایک کے بعد ایک 9 آرڈیننس لانے کے پیش نظر صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کی نصیحت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صدر نے سرکار کو آرڈیننس راج سے بچنے کیلئے سیدھا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کو بھی سخت پیغام دیتے ہوئے کہہ دیا کہ اقلیتی اپوزیشن اکثریت کی آواز کو بے وجہ نہیں دبا سکتی۔ 16ویں لوک سبھا میں حکمرانی اور پائیداری کیلئے اکثریت ملی ہے۔ آئے دن آرڈیننس جاری کرنے سے بچنے کے لئے دونوں کو آپس میں مل بیٹھ کر کوئی باقاعدہ حل نکالنا چاہئے۔ صدر محترم نے بلوں کو پاس کرانے کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کو بھی غیرضروری بتایا ہے۔ ایسا کہہ کر انہوں نے مودی سرکار کو چوکس کیا ہے۔ پارلیمانی وقار کو لگاتارٹھیس پہنچنے پر دیش کی بیدار عوام فکر مند ہے۔ میڈیا سمیت کئی اسٹیج پر یہ تشویش ظاہرکی گئی ہے اور اب صدر محترم نے بھی اسے اٹھا لیا ہے۔ ایک سرپرست کی طرح صدر پرنب مکھرجی نے مناسب طور پر دونوں فریقین کو یاد دلایا ہے جب پارلیمنٹ آئین سازیہ میں ناکام ہوتی ہے تو اس پر سے جنتا کا بھروسہ ٹوٹتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کارروائی میں رخنہ نہیں ڈالنا چاہئے۔ شور شرابہ کرنے والی اقلیتی اپوزیشن کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ ایک تحمل پرست اکثریت کا گلا گھونٹ دیں۔ ظاہر ہے صدر کے ان تبصروں کو اپوزیشن کے حالیہ برتاؤ پر تنقید کی شکل میں دیکھا جائے گا لیکن اپنے دیش کا یہی ایک مشغلہ ہے کہ اپوزیشن میں ہوں یا جو بھی پارٹی اپوزیشن میں ہو وہ آئین سازیہ کو یعنی صدر کے الفاظ میں کہیں تو بھیڑ جٹانا اور سڑک پر مظاہروں کا اسٹیج بنانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس حالت کیلئے صرف اپوزیشن ہی ذمہ دار ہے، حکمراں پارٹی بھی اس کیلئے ذمہ دار ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جیسے ہی پارٹی اقتدار میں آتی ہے وہ بھول جاتی ہے پارلیمنٹ، اسمبلیاں اشتراک اور خیرسگالی اور احترام کے مقصد کے جذبے سے چلیں یہ یقینی کرنا ان کی ذمہ داری بھی ہے۔ صرف اپوزیشن کو دن رات کوسنے سے کام نہیں چلے گا۔ جب پرنب مکھرجی خود کانگریس میں تھے تو وہ حکمراں ہونے کے باوجود اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کے جانے کے بعدیہ ٹکراؤ شروع ہوا ہے۔ مودی سرکار میں وزیر پارلیمانی امور کو کوشش کرنی ہوگی کہ وہ ایوان کو ٹھیک ٹھاک چلانے کی کوشش کریں۔ جہاں تک ممکن ہو آرڈیننس لانے سے بچیں۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ برسوں سے حکمراں پارٹی اور اپوزیشن پارٹیوں میں ٹکراؤ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ایوان ٹھیک ٹھاک نہیں چلتا اور پورا سیشن ملتوی ہوتا رہتا ہے اور آخر میں برسر اقتدار پارٹی کو جب کوئی اور راستہ نہیں ملتا تو وہ آرڈیننس کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ دونوں حکمراں اور اپوزیشن صدر جمہوریہ کی اس نیک نصیحت پر سنجیدگی سے غور کریں گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟