منتری ہو یا سنتری مریاداؤں کی تعمیل کرنی ہوگی!

اپنی ہی سرکار کی ایک وزیر کے متنازعہ الفاظ کی وجہ سے مودی حکومت کی چوطرفہ طور پر کرکری ہوئی۔ پچھلے دو دنوں سے حکمراں اور اپوزیشن میں غذا اور پروسسنگ وزیر مملکت سادھوی نرنجن جوتی کے متنازعہ بیان پرجم کر ہنگامہ چل رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں سادھوی نرنجن جوتی کے استعفے پر اڑی ہوئی ہیں جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے آج راجیہ سبھا میں اپنی طرف سے سرکار کا موقف رکھتے ہوئے ممبران پارلیمنٹ اور وزرا کو سخت نصیحت دی ہے اور ان کا کہنا ہے اب یہ معاملہ ختم ہوجانا چاہئے۔ہوا یوں وزیرمملکت سادھوی نے پیر کے روز دہلی اسمبلی کیلئے چناؤ کمپین کرتے ہوئے ایک ریلی میں لوگوں سے رام زادوں اور حرام زادوں میں سے ایک کو چننے کا متنازعہ بیان دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا دہلی اسمبلی چناؤ میں رائے دہندگان کو طے کرنا ہے کہ وہ رام زادوں کی سرکار بنائیں گے یا حرام زادوں کی؟ سادھوی نے اپنے اس بیان میں اپوزیشن کو بیٹھے بٹھائے ایک اشو دے دیا ہے جس سے سرکار کی کرکری ہوئی ہے۔خود وزیر اعظم بھی بھاجپا پارلیمانی پارٹی میں ان کے بیان کو مسترد کرکے سخت وارننگ دے چکے ہیں اور پارٹی کے بڑبولے لیڈروں کو نصیحت دی کہ وہ بے وجہ بیان دے کر مرکزی سرکار کی کرکری نہ کرائیں۔ مودی نے ایسے بیانات کو تکلیف دہ بتایا ،ساتھ ہی کہا کہ اب میڈیا کے سامنے وہ سرکاری طور پر بیان دیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں سیاستداں تہذیب کے دائرے سے باہر نکل کر الٹے سیدھے بیان دے رہے ہیں۔ کسی بھی شخص خاص کر نیتا اور وزیر کو ایسی زبان زیب نہیں دیتی جیسا کہ سادھوی نرنجن جوتی نے اپنے سیاسی حریفوں کے لئے استعمال کی ہے۔ زیادہ پریشانی یہ بھی ہے کہ وہ ایک سادھوی ہیں اور ان سے غیر مہذب الفاظ کی امید نہیں کی جاتی۔ بیشک سادھوی نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپنے بیان پر افسوس ظاہر کرنے کے ساتھ معافی بھی مانگ لی ہے لیکن اس سے بھاجپا اور سرکار کو جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوہی گیا اس کی وجہ سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا قیمتی وقت بھی بلا وجہ کی بحث بازی میں ضائع ہوگیا اور ابھی بھی ڈیڈ لاگ برقرار ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ لیڈر تلخ تیوروں والے ہوتے ہیں اور وہ اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف سخت زبان کا استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں بھدی زبان کا استعمال کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ بھاجپا اور مودی سرکار کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ اپنی سطح پر یہ یقینی بنائیں کہ مستقبل میں اس طرح کے معاملے سامنے نہ آئیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا ہے تو اپوزیشن کو بیٹھے بٹھائے مودی سرکار کی ٹانگ کھینچنے کا جہاں موقعہ ملے گا وہیں سرکار اور بھاجپا کی ساکھ بھی خراب ہوگی۔ اپوزیشن سادھوی کے استعفے پر اڑا ہوا ہے ان کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کرانے کے مطالبے پر بھی اڑیل ہے اور کہا ہے کہ صرف معافی مانگنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ تعطل کیسے ٹوٹے گا یہ منحصر کرتا ہے وزیر اعظم نریندر مودی پر۔ پارلیمنٹ ٹھیک ٹھاک چلے یہ مودی سرکار کا فرض ہے۔ بہتر ہو کہ معاملے کا قابل قبول حل نکال لیا جائے اور سرکار پھر سے پٹری پر آجائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟