اریب مجیدکی وطن واپسی کہیں کوئی سازش تو نہیں؟

خطرناک آتنکی تنظیم آئی ایس سے جڑنے کے قریب 6 مہینے بعد بھارتیہ شہری اریب مجید کی وطن واپسی کو ہماری سکیورٹی اور خفیہ ایجنسیوں نے سنجیدگی سے لیا ہے تو اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ مجید ان چار لڑکوں میں سے ایک ہے جو شام اور عراق میں جاکر آئی ایس سے جڑے تھے۔ حالانکہ اس دوران ان چاروں لڑکوں کے رشتے داروں نے سکیورٹی ایجنسیوں ،خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مسلسل تعاون کیا اور اس تال میل کے سبب ہی اریب مجید کی وطن واپسی ہو پائی ہے۔ لیکن این آئی اے کی حراست میں ابتدائی پوچھ تاچھ کے دوران مجید نے لوٹنے کی جووجہ بتائی ہے وہ بہت بھروسے مند نہیں لگتی۔ جو شخص مہینوں تک آئی ایس کی آئیڈیالوجی سے متاثر ہورہا ہو اور جس نے زیادہ سے زیادہ لڑکوں کو اس سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، کون مانے گا کہ اس نے کن حالات میں اور کس توقع کی وجہ سے لوٹنے کا فیصلہ کیا ہو؟ جب آئی ایس سے جڑنے کا اسے کوئی افسوس نہیں ہے تب کوئی مانیں بھی کیسے یہ ایک بھٹکے لڑکے کی گھر واپسی ہے۔ اپنے تین دیگر ساتھی انجینئرننگ طلبا کے ساتھ زیارت کے ارادے سے نکلے اریب مجید کی فراری سے لیکر واپسی تک کا واقعہ اتنا مشتبہ اور مضحکہ خیز ہے کہ اس کی جانچ پڑتال ضروری ہے ۔ خاص کر جب اس خطرناک آتنکی تنظیم کے ذریعے بھارت سمیت پورے ساؤتھ ایشیا کو نشانہ بنائے جانے کی خبریں آرہی ہیں۔ پڑوسی پاکستان میں اس کی موجودگی کے پختہ ثبوت ہوں۔ اریب مجید نے پوچھ تاچھ میں انکشاف کیا ہے کہ آئی ایس کوئی مقدس جنگ نہیں لڑ رہی ہے بلکہ اس کی آڑ میں وہ گھناؤنے کام کررہی ہے۔ اس نے جانچ ایجنسیوں کو جانکاری دی ہے کہ وہاں کے لڑاکے جہاد نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ تو آبروریزی جیسے کام میں بھی ملوث ہیں۔ این آئی اے کے ایک افسر کے سوال کے جواب میں مجید نے کہا وہاں نہ تو کوئی جہاد ہورہا ہے اور نہ ہی مقدس کتابوں میں لکھی باتوں پر عمل ہورہا ہے۔ آئی ایس لڑاکوں نے وہاں کئی عورتوں سے آبروریزی بھی کی ہے۔ مجید نے یہ بھی بتایا کہ آئی ایس نے اسے کس طرح نظرانداز کیا کہ لڑائی میں حصہ لینے کیلئے بھیجے جانے کے بجائے اس سے ٹوائلٹ کی صفائی کا کام لیا جاتا تھا یا جنگ لڑ رہے لڑکوں کو پانی پلانے کو کہا جاتا تھا۔ بدقسمتی تو یہ ہے دیش کے اندر بھی آئی ایس کے تئیں رغبت کے کچھ اثرات کشمیر وادی سے لیکر اترپردیش ،مغربی بنگال میں ملے ہیں۔ دنیا بھر سے انٹر نیٹ کے ذریعے لڑکوں کی بھرتی اور ٹریننگ کے بعد ان کی پھر اپنے دیش کو واپسی کے واقعات کی مثالیں ہمیں برطانیہ اور دیگر یوروپی ملکوں سے بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔ پوری دنیا شش و پنج میں ہے کہ کسی حکمت عملی اور منظم نشانوں کے ساتھ تو انہیں واپس نہیں بھیجا جارہا ہے؟ اریب کے بارے میں تو اس کے ساتھ فرار ساتھیوں نے یہ اطلاع دی تھی کہ وہ شام میں لڑتے ہوئے مارا گیا ہے۔ اب اچانک اس کی واپسی کی گتھی اتنی آسانی سے حل ہوتی نہیں دکھائی پڑتی۔ ہمیں پوری چوکسی برتنی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟