منک سرکارکی انوکھی پہل کا خیر مقدم ہے!

ہم نے پیر کو ایک ایسا سیاسی نظارہ دیکھا جس کی ہم تعریف کرنے سے گریز نہیں کرسکتے۔تریپورہ میں مارکسوادی قیادت والی منک سرکار نے ریاست کی ترقی میں سیاست سے اوپر اٹھنے کی ایک اچھی مثال پیش کی ہے۔جب انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ریاست آنے کی دعوت دی اور کہا وہ ان کی کیبنٹ کے ممبروں اور ممبران اسمبلی کو اگرتلہ میں خطاب کریں اور انہیں ’گوڈ گورننس‘ کا پاٹ پڑھائیں۔بتاتے چلیں کہ کمیونسٹوں کا آخری قلعہ بچا ہے تریپورہ میں۔ ساؤتھ میں واقع تریپورہ میں وزیر اعظم کو لیفٹ وزیر اعلی کے ذریعے دعوت دینے کی مثال بھارت کی سیاست میں نئی روایت ہے۔ نظریاتی طور سے بھاجپااور مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی دو بالکل الگ بلکہ مسلسل حریف نظریات رکھنے والی پارٹی ہیں۔ مرکز کی بھاجپا حکومت کے کچھ قدموں کے خلاف تریپورہ کے وزیر اعلی منک سرکار نے خاص طور سے سرگرمی دکھائی ہے۔ مثلاً منریگا کو مبینہ طور سے محدود کرنے کی کوششوں کے خلاف وہ سڑکوں پر اترے۔ اس کے باوجود جب وزیر اعظم نریندر مودی بجلی گھر کا افتتاح کرنے تریپورہ گئے تو انہوں نے مناسب سمجھا کہ انہیں اپنے کیبنٹ سے بات چیت کیلئے بلایا جائے۔دیش میں مارکسوادی پارٹی کی سرکار اب صرف تریپورہ میں ہی رہ گئی ہے اور منک سرکار کی یہ پہل آج کے سیاسی ماحول میں الگ ہی معنی رکھتی ہے حالانکہ ایک لیفٹ نظریئے و پارٹی کا وزیر اعلی کا یہ فیصلہ سیاسی طبقے کو ہضم نہیں ہورہا ہے۔ بتایا جاتا ہے دیش بھر میں لیفٹ سیاست کمزور پڑ رہی ہے اور الگ تھلگ پڑنے سے پریشان منک حکومت نے اپنے لئے کوئی الگ سیاسی راستہ تلاش کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ غور طلب ہے مارکسوادی پارٹی اور بھاجپا کے درمیان سیاسی رشتے کبھی نہیں رہے ہیں۔ دونوں کی سیاست دو نکتوں پر چلتی ہے اور دونوں کے درمیان ہمیشہ چھتیس کا آنکڑا بنا رہتا ہے۔ اس کے باوجود منک سرکار کی یہ پہل بھاجپا کیلئے بھی انوکھی ہے۔وزیر اعلی نے گڈ گورنینس اور سوچھ بھارت مشن سے وابستہ وزیر اعظم کے نظریئے پر براہ راست بات چیت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس سے ایک نئی مثال قائم ہوئی ہے۔ ایسے موقعہ مسلسل ملیں تو سیاسی طور سے اپوزیشن پارٹیوں اور لیڈروں کو ایک دوسرے کے نظریات سمجھنے کا ایک اچھا موقعہ ملے گا۔ مثلاً تریپورہ کی لیفٹ حکومت کو منریگا یا دیگر سماجی فلاحی اسکیموں پر مرکز کے موقف سے شکایت ہے تو اس سے بہتر کیا ہوگا کہ وہ اپنے نقطہ نظر کو سیدھے وزیر اعظم کے سامنے رکھیں؟ اس لئے اپنی ایمانداری اور سادگی کے لئے مشہور منک سرکار کی اس پہل نے سارے ملک کی توجہ اپنی طرف مرکوز کی ہے۔ دراصل یہ ایک ایسا قدم ہے جس سے مرکز اور ریاستی تعلقات کو ٹھیک ٹھاک بنانے کی سمت میں ایک اہم شروعات ہوسکتی ہے۔ سیاسی اختلافات کی وجہ سے مرکز اور ریاستی حکومت کا اکثر ٹکڑاؤ بنا رہتا ہے۔ خاص کر جب مرکز اور ریاستوں میں الگ الگ آئیڈیالوجی کی حکومتیں ہوں۔ منک سرکار نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سب سے زیادہ اہم ہے ریاست کی ترقی اور اس کے لئے وہ پارٹی کی روایت ،آئیڈیالوجی سے اوپر اٹھنے کو تیار ہے۔اس پہل کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟