بھاجپا مشکل میں ،چناؤ کرائے یا سرکار بنائے؟

کیا ہریانہ اور مہاراشٹر میں بھاجپا کو ملی کامیابی کا اثر دہلی پر بھی پڑے گا؟ یا پارٹی اب دہلی میں چناؤ کرائے گی؟ یہ سوال سیاسی گلیاروں میں بے چینی سے پوچھا جارہا ہے۔ مہاراشٹر تو دہلی سے تھوڑا دور ہے اس لئے اس کا تو راجدھانی میں کیا اثر پڑے گا لیکن ہریانہ تودہلی سے لگا ہوا ہے اور ہریانہ میں اکثریت ملنے سے بھاجپا کی دہلی یونٹ امید افزا ہوگئی ہے کہ پارٹی ابھی تک جو شش و پنج میں تھی اس کا جوش اب پوری طرح سے سامنے آگیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے دہلی اسمبلی چناؤ کیلئے سبھی پارٹیاں تیار ہیں۔اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بھاجپا اور دوسرے نمبر پر ’عام آدمی‘ پارٹی ہی نہیں کانگریس کے لیڈر بھی چناؤ میں جانے کو تیار ہیں۔ اسمبلی بھنگ کرنے کی سفارش کیلئے کس کے حکم کا انتظار ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ آخری فیصلہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کو لینا ہے۔ ایسے میں28 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں معاملے کی سماعت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بھاجپا کیلئے سب سے زیادہ حوصلہ بڑھانے والی بات ہریانہ میں بھاجپا کی شاندار کامیابی کے نتائج ہیں جہاں پچھلے اسمبلی چناؤ میں تمام کوششوں کے بعد بھی بھاجپا دو نمبروں تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پارٹی پانچ سیٹوں پر سمٹ گئی تھی۔ اس بار اپنے بوتے پر وہ اس ریاست میں مکمل اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ دونوں ریاستوں کے نتائج دہلی میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کیلئے اچھے اشارے نہیں ہیں۔ پارٹی کے حکمت عملی ساز تو یہ مان کر چل رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں ہم 32 سے بڑھ کر60 سیٹوں تک پہنچ جائیں تو کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ دوسری طرف کانگریس دہلی کے چیف ترجمان مکیش شرماسوال کرتے ہیں کہ اگر نریندر مودی کی لہر ہے تو بھاجپا دہلی میں اسمبلی چناؤ کیوں نہیں کرواتی۔ کانگریس ہر وقت چناؤ میں جانے کو تیار ہے۔ بھاجپا میں ایک بڑا گروپ چاہتا ہے لیکن پارٹی میں مہاراشٹر اور ہریانہ میں وزیر اعلی کو لیکر چل رہی اتھل پتھل سے پہلے دہلی کی طرف قومی لیڈرشپ توجہ نہیں دینا چاہتی۔ دلیل دی جارہی ہے کہ دونوں ریاستوں میں وزیر اعلی بنائے جانے کے بعد کوئی فیصلہ لیا جائے گا۔ 
جب ہریانہ کے وزیر اعلی کا فیصلہ ہوگیا ہے اب مہاراشٹر میں سب کچھ طے ہونے کے فوراً بعد دہلی اسمبلی بھنگ کرکے چناؤ کا اعلان ہوسکتا ہے۔ ادھر عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال نے ایک بار پھر چناؤ کمپین میں تیزی لانے کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔ انہوں نے دہلی کے شہریوں کو دعوت دی ہے کہ وہ واٹس ایپ کے ذریعے ان سے سیدھے جڑیں۔ عام لوگوں کو کیجریوال کے نام سے ایس ایم ایس آرہے ہیں۔ ایک سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ اگر اسمبلی چناؤ ہوئے تو کون لیڈ کرے گا؟ یہ سوال اب اقتدار کے گلیاروں میں گشت کررہا ہے کیا بھاجپا اعلی کمان چناؤ کے دوران امکانی وزیر اعلی کے نام کا اعلان کردے گی یا وہ ہریانہ ، مہاراشٹر کے بغیر ریاستی چہرے کے اسمبلی چناؤ کا سامنا کرے گی؟ پھر اگر چناؤ ہوتے ہیں تو کب ہوں گے یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے؟ بھاجپا کے نیتا فروری کے مہینے کو چناؤکیلئے بہتر مان رہے ہیں کیونکہ اس وقت نہ تو دہلی میں بجلی پانی کی قلت ہوگی اور سبزیوں کے دام بھی کم ہوجائیں گے۔ ماحول بھاجپا کے حق میں دکھائی دے گا لیکن پارٹی کا ایک گروپ ابھی یہ کہہ رہا ہے کہ مہاراشٹر اور ہریانہ کے نتائج کے بعد عام آدمی پارٹی میں بھگدڑ مچ جائے گی اور بڑی بات تو نہیں اس پارٹی کے 28 میں سے قریب20 ممبر اسمبلی بغیر شرط بھاجپا میں شامل ہوجائیں گے۔ انہیں لگے گا کہ بھاجپا میں جانے سے ان کا سیاسی مستقبل اور ممبر شپ چار سال تک محفوظ ہوجائے گی۔لگتا یہ ہے کہ کوئی بھی موجودہ ممبر اسمبلی چناؤ میں جانے کو تیار نہیں ہے اور سبھی چاہتے ہیں کہ دہلی میں سرکار بن جائے اور وہ چناؤمیں جانے سے بچ جائیں۔ دیکھیں بھاجپا اعلی کمان کیا فیصلہ کرتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟