بچوں کے جنسی استحصال کے بڑھتے واقعات باعث تشویش مسئلہ !

حال ہی میں بچوں کے جنسی استحصال کے بڑھتے واقعات پورے سماج کے لئے ایک تشویش کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ آئے دن بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی تفصیل پڑھ کر دل بیٹھ جاتا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے سماج کو آخر ہوتا کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں مغربی دہلی کے ہری نگر میں واقع ایک پلے اسکول کے مالک کے24 سالہ بیٹھے کے ذریعے عصمت دری کا شرمناک واقعہ سامنے آیا۔ بچی کے جسم سے خون بہتا دیکھ کر گھروالے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے جہاں سے بچی کے ساتھ بدفعلی کی تصدیق ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ کئی دنوں سے بچی کے ساتھ ذیادتی کررہا تھا۔ ایسے ہی دہلی کے روہنی میں واقع پلے اسکول میں ڈھائی سال کی ایک بچہ کے ساتھ بھی بدتمیزی کا معاملہ سامنے آیا۔ بچی کے بیمار ہونے پر طبی جان سے پتہ چلا کہ اس کے ساتھ بدفعلی ہوئی ہے۔والد کی شکایت پر پولیس نے ایک ایف آئی آر درج کرکے اسکول کے ہی ایک ملازم کو گرفتار کرلیا۔ اسکولوں کو تعلیم کا مندر مانا جاتا ہے۔ بچوں کو اسکول بھیج کر والدین بے فکر ہوجاتے ہیں اور انہیں لگتا ہے بچہ وہاں اچھے اخلاق و آداب سیکھے گا۔ پڑھ لکھ کر نہ صرف اپنی زندگی میں کامیاب ہوگااور باپ سے آگے بڑھے گا لیکن اس بھروسے کے ساتھ جن کے ہاتھوں میں وہ اپنے بچوں کو سونپتے ہیں اگران کے ساتھ اسکول کے ذمہ داران ان کا مستقبل چوپٹ کرنے لگیں تو تعلیمی اداروں سے لوگوں کا بھروسہ اٹھ جائے گا۔ اگر اسکول ہی بچوں کیلئے محفوظ نہیں ہیں تو وہ تعلیم حاصل کرنے کہاں جائیں؟ وزارت خواتین و اطفال ترقی کے ذریعے کرائی گئی ایک اسٹڈی سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ بھارت میں ہر روز تین میں سے دو اسکولی بچوں کے ساتھ جنسی چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے اور وہ اس کا شکار ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ جنسی استحصال 5 سے12 برس کے بچوں کا ہوتا آرہا ہے۔ جنسی استحصال کا شکار 70 فیصدی بچے اپنے ماں باپ سے اس بارے میں بتا نہیں پاتے۔ راجدھانی میں بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کیلئے خاتون و اطفال ترقی وزارت نے ایک اسپیشل ٹریننگ اور بیداری کا ایک پروگرام تیار کیا ہے اس کے تحت بچوں کو ان کی عمر کے مطابق تربیت دی جائے گی اور انہیں خاموشی توڑ کر آواز اٹھانے کی ترغیب دی جائے گی۔ اس کڑی میں جلد سے جلد ہی برین ٹارمنگ پروگرام شروع ہوگا۔ بیداری کے اس پروگرام کے تحت بچوں کی عمر کے حساب سے ان کو تین گروپوں میں بانٹ کر تربیت دی جائے گی۔ پانچ سے آٹھ سال اور 9 سے12 سال اور12 سے18 سال کے گروپ بنا کر بچوں کو بیدار کرنے ، ان میں حوصلہ پیدا کرنے کا پلان بنایا گیا ہے۔ بچے دیش کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن آج وہ عدم سلامتی کے جس ماحول میں جی رہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے دیش کا مستقبل کتنا محفوظ ہے۔ بچپن سے جنسی استحصال کا شکار ہوئے بچے بالغ ہونے پر بھی اس کے اثر سے آزاد نہیں ہوپاتے۔ بچوں کی اسمگلنگ ،غائب ہونے، اغوا اور قتل کے معاملے مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ سرکاریں تو اپنا کام کررہی ہیں لیکن جب تک ہمارا سماج اپنی ذہنیت نہیں بدلتا اس بڑھتے مسئلے سے نجات پانا مشکل لگتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کو بچے بہت پیارے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس سمت میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں گے تاکہ ننھے بچوں کو جنسی استحصال سے بچایا جاسکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟