ہار کے سبب نہیں سونیا ۔راہل کو بچانے کیلئے بلائی گئی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ!

جیسا کے امید تھی کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس محض ایک خانہ پوری اور گاندھی کنبے کو بچانے کے لئے بلایا گیا تھا اور یہ ہی ہوا بھی۔ لوک سبھا چناؤ میں اب تک کی سب سے بری ہار کے بعد دیش بھر میں کانگریس میں اٹھ رہے ناراضگی کے تیوروں کو دیکھتے ہوئے پیر کو ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کی خاص اہمیت تھی۔لوک سبھا چناؤ میں اب تک کی سب سے بڑی شکست جھیلنے کے بعد کانگریسی ورکر پوری طرح صدمے میں ہیں اور جگہ جگہ ان میں ناراضگی کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ جن 13 ریاستوں میں کانگریس کا کھاتہ نہیں کھلا ہے وہاں زیادہ گھمسان شروع ہوگیا ہے۔ لیڈر اور ورکر ناراض ہیں۔ دہلی ، جموں وکشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، راجستھان، گجرات، گووا، اڑیسہ، جھارکھنڈ، تریپورہ ، سکم، ناگالینڈ، تاملناڈو میں پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہیں مل سکی۔سرخیوں میں کیسے رہیں یہ کانگریس کے کچھ بڑے نیتاؤں کو اچھی طرح سے آتا ہے۔ چناؤ کے بعد الہ آبادمیں ہرطرف بھاجپا کا تذکرہ چھایا ہوا تھا اسی درمیان کچھ کانگریسیوں نے سول لائن میں واقع سبھاش چوراہے پر متنازعہ بینر لگا کر نئی بحث شروع کردی ہے۔ شہر کے دو کانگریسی عہدیداروں نے بینر کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ راہل گاندھی اس چناؤ میں کانگریس کی نیا پار لگانے میں بری طرح ناکام رہے اس لئے پارٹی کی کمان پرینکا گاندھی کو سونپ دی جائے۔ شہر کانگریس کے سکریٹری حسیب احمد ،شری رام چندر دوبے کی طرف سے لگائے گئے بینر میں کہیں بھی راہل کی فوٹو نہیں اور نہ کوئی تذکرہ کیا گیا۔ لیکن بینر کے ذریعے پرینکا گاندھی کو پارٹی کی کمان سونپے جانے کا مطالبہ کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ کانگریسیوں کو اب راہل گاندھی کی لیڈر شپ قبول نہیں۔ بینر پر سونیا اور پرینکا کی تصویر ہے۔ اس پر لکھا ہے ’جنتا کا پیغام سنو اور گراؤنڈ زیرو سے شروعات کرو‘ کانگریس ایک انقلاب کا رتھ مییا دو آدیش، پرینکا بڑھائے کانگریس کا قد، یوپی میں اگنی پتھ ،اگنی پتھ۔۔۔اگنی پتھ ، آجاؤ پرینکا ۔چھا جاؤ پرینکا‘۔ الہ آباد کا یہ بینر کم و بیش پورے دیش کے کانگریسیوں کی آواز ہے۔ پیغام سے صاف ہے کہ راہل فیل ہوگئے ہیں لیکن ورکنگ کمیٹی میں ہار کے اسباب کا تجزیہ کرنے کے بجائے سونیا اور راہل گاندھی کی طرف سے استعفے کی پیشکش کو جس طرح مسترد کیا گیا اس سے تو یہ ہی پتہ چلتا ہے تجزیئے کے نام پر خانہ پوری کی گئی ہے۔ میٹنگ میں جس طرح ہار کے سبب جاننے کے لئے کمیٹیا ں بنانے کے اشارے دئے گئے اس سے یہ صاف ہے کہ کانگریس اپنی سب سے بڑی ہار کے اسباب سے منہ چھپا رہی ہے۔محض خانہ پوری کرکے پیغام دے دیا گیا کہ ہار کے لئے نہ توچھان بین کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش ہو کہ آخر پارٹی عرش سے فرش تک کیسے آپہنچی۔ ہم سبھی جانتے ہیں چناؤ سونیا اور راہل گاندھی کی قیادت میں لڑے گئے۔ انہوں نے جیسی پالیسی اپنائی وہی چلی۔ جہاں کانگریس تنظیم بری طرح فیل ہوئی وہیں منموہن سرکار کے ناکام انتظامیہ نے بھی پارٹی کی لٹیا ڈوبادی۔ ایک کے بعد ایک گھوٹالے اور انہیں نہ روکنے کی کوشش میں جنتا نے یہ پیغام دیا کہ نہ تو منموہن سنگھ اور نہ ہی کانگریس لیڈر شپ کو اسے روکنے میں کوئی دلچسپ ہے۔ بار بار آگاہ کرنے کے باوجود کانگریس لیڈر شپ اور سرکار پر کوئی اثر ہوا کے جنتا مہنگائی سے بری طرح پریشان ہے۔ نوجوان چلاتے رہے ہمارا مستقبل ادھر میں لٹکا ہوا ہے لیکن نہ تو منموہن سنگھ اور نہ سونیا گاندھی اور نہ راہل گاندھی نے ان کی آوازیں سنیں۔میٹنگ میں راہل گاندھی نے کہا انہیں لگتا ہے کہ پارٹی میں کام کاج کو لیکر کوئی جوابدہ نہیں ہے۔ اس چناؤ کے دوران لیڈر شپ کرنے میں کھرے نہ اترنے کا حوالہ دیتے ہوئے خود سے جوابدہی کی شروعات کرنے کا اعلان کیا۔اسی سلسلے میں استعفے کی پیشکش کی۔ کانگریس صدر اور نائب صدر کے بارے میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا جتنی محنت کی اور تنظیم کو چلانے کا بوجھ اٹھایا یہ غیر معمولی کام ہے اور اس کا حل استعفیٰ نہیں ہے۔ کانگریس سکریٹری جنرل جناردن دویدی نے بتایا کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں ایک آواز سے استعفے کا ریزولیشن خارج کردیا۔ کل ملاکر ہار کے اسباب جاننے کے بجائے نتائج سے سبق لیتے کانگریس اب خود ہی اپنا مذاق اڑوانے میں لگ گئی ہے۔ مینڈیٹ کو قبول کرنا کانگریس کے لئے کتنا مشکل ہورہا ہے اسے پارٹی صدر کے بیان سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ سونیا نے کہا دیش میں جس طرح کا ماحول بنایا گیا اور سماج میں پولارائزیشن کیا گیا وہ قابل تشویش ہے ساتھ ہی انہوں نے بھاجپا کے جارحانہ پرچار اور میڈیا میں زیادہ کوریج کو لیکر کہا کہ ہمارے حریفوں نے محدود وسائل کا استعمال کیا۔ حالانکہ انہوں نے مانا کہ کچھ کمی تنظیمی سطح پر بھی رہی ہے اور یہ کہہ سن کر ہو گیا ہار کے اسباب کا جائزہ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟