مودی کا خوف دکھانے والی سیاسی پارٹیوں کو مسلم نوجوانوں کا کرارا طمانچہ!

مودی کی ہوا جس کو نظر نہیں آئی اس کے پاؤں مودی کے آندھی میں اکھڑ گئے۔ یہ سب سے زیادہ فٹ اترپردیش پرہوتا ہے۔ یہ ہی ملائم اور مایاوتی دن رات مودی کوکوستے نہیں تھکتے تھے۔ مودی کی ایسی سونامی آئی کہ مایاوتی کی پارٹی کا تو صفایا ہی ہوگیا اور گھر میں ہی تھم گئے سائیکل کے پہئے۔ مودی کی لہر اور سونامی پر اٹھے سوالات نے اتنا خوفناک بنادیا کہ اپوزیشن کے لئے کنبے کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ اترپردیش میں شاندار کامیابی سے لوٹی خود بی جے پی نے بھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ رام لہر اور اٹل جی کی کویتائیں بھی یوپی میں جنتا میں جوش پیدا نہیں کرسکی تھیں جو مودی کی سونامی نے کر ڈالا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھاجپا نے ان سیٹوں پر بھی اس مرتبہ بھگوا پرچم لہرادیا جن کو جیتنا اس کے لئے خواب سے کم نہیں تھا۔ نریندر مودی کی آندھی میں مودی کے خلاف مسلم ووٹروں کو منظم کرنے کی اپوزیشن پارٹیوں کی سیاست اس مرتبہ پوری طرح فیل ہوگئی۔ اترپردیش ، بہار جیسی ریاستوں میں مسلم ووٹروں کا سیاسی طور سے پولارائزیشن کرنے والی سیاسی پارٹیاں اور اقلیتی ووٹوں کے سوداگر مودی لہر میں کیوں بہہ گئے یہ کافی دلچسپ ہے۔ایسا مانا جارہا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے بھاجپا اور مودی کا ڈر دکھا کر ووٹ مانگنے والوں کو مسلم ووٹروں خاص کر نوجوانوں نے اس بار پوری طرح مسترد کردیا ہے۔ اترپردیش اور بہار میں کئی پارلیمانی سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹروں کی حمایت سے ہی نمائندے چنے جاتے رہے ہیں۔ سیکولر پارٹیوں نے اس بار بھی بھاجپا اور مودی کے خلاف مسلم ووٹروں کوبانٹنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کے باوجود مغربی اترپردیش میں فساد متاثرہ علاقوں کو چھوڑ کر کسی بھی حلقے میں مسلمانوں کا کسی بھی پارٹی کے ساتھ پولارائزیشن نہیں دکھا۔ مغربی اترپردیش میں بھی فسادات کے لئے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ سماجوادی پارٹی سے خفا تھا۔ مودی کا ڈر دکھانے کے باوجود مسلم نوجوانوں کاایک طبقہ مودی کے ترقی کے نعرے سے کافی متاثر تھا اور ایک بار مودی کو آزمانے کے لئے اس نے بھاجپا کو ووٹ دیا۔ اترپردیش میں بھاجپا نے 1991,1996 اور 1998 کا اپنا ریکارڈ توڑتے ہوئے 71 سیٹیں اپنی جھولی میں ڈال لیں۔ بھاجپا نے ان سیٹوں پر بھی بھگوا پرچم لہرادیا جو مسلم اکثریتی والی سیٹیں مانی جاتی تھیں۔ ان سیٹوں میں اعظم خاں کے اثر والی رامپور اور مراد آباد ، علیگڑھ، فیروز آباد جیسی مشکل سیٹیں مانی جاتی ہیں۔ ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ پورے پردیش میں ایک بھی مسلمان ایم پی منتخب ہوکر 16 ویں لوک سبھا نہیں پہنچا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مظفر نگر فسادات کے بعدبنے فرقہ وارانہ ماحول کا مغربی اترپردیش میں بھاجپا کو پورا فائدہ ملا۔ پہلے مرحلے کی سبھی سیٹوں مظفر نگر، کیرانہ، بجنور، میرٹھ، باغپت، علیگڑھ، سہارنپور، غازی آباد، گوتم بودھ نگر، بلند شہر لیکن سہارنپور کو چھوڑ کر باقی سیٹوں پر جیت کا فرق 2 لاکھ سے زیادہ تھا۔ غازی آباد میں تو جنرل وی کے سنگھ نے 5 لاکھ تو بلند شہر سے4 لاکھ، مظفر نگر میں جیت کا فرق4 لاکھ سے زیادہ تھا۔ صرف پولارائزیشن کے کھیل کو امت شاہ نے نہیں ہی توڑا بلکہ دلتوں کے پکے ووٹ بینک والی بسپا کو بھی منہ کی کھانی پڑی۔ مودی کی سونامی میں ہاتھی کے پاؤں پوری طرح اکھڑ گئے اور لوک سبھا میں برسوں بعد بسپا کا ایک بھی ایم پی موجود نہیں ہوگا۔ مودی لہرنے پارٹی کی سوشل انجینئرنگ فارمولے کو تہس نہس کردیا۔ دلت ووٹوں کی دیوار ڈھے گئی۔ 15ویں لوک سبھا میں بسپا کے20 ایم پی تھے۔پچھلی لوک سبھا میں 27.42فیصد ووٹ پانے والی بسپا کا ووٹ بینک گھٹ کر اب 20 فیصدی کے آس پاس رہ گیا ہے۔ صاف ہے ووٹ بینک کے گھٹنے سے بہن جی کی پارٹی18 برس پہلے کی پوزیشن میں آ گئی۔ امید تھی جس سائیکل کو عوام نے دو سال پہلے زبردست اکثریت سے ریاست میں اقتدار کی باگ ڈور سونپی تھی اسی کے پہئے 16 ویں لوک سبھا چناؤ میں گھر کے اندر ہی تھم گئے۔ پسماندہ ووٹوں کے بکھراؤ و براہمن ووٹوں کی بے رخی نے سپا کو خود اپنی ٹیلی میں سب سے نیچے کے پائیدان پر لادیا۔ اس بار سماجوادی پارٹی کی جیت ملائم سنگھ یادو کے کنبے تک سمٹ کر رہ گئی۔ خود ملائم ،بہو ڈمپل دو بھتیجوں اور کل ملاکر5 سیٹوں پر جیت درج کی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟