سنجیدہ،جوابدہ او جذباتی نامزد وزیر اعظم نریندر مودی!

نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اکثریت کے ساتھ دہلی کے اقتدار تک پہنچنے کے دلچسپ اور اس کی تاریخی اہمیت کی بحث ویسے تو 16 مئی کے نتائج آنے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی لیکن اس بحث میں تب ایک شدید اور تناسبی اور بھروسے کی شکل اختیار کرلی جب نریندر مودی باقاعدہ طور سے بھاجپا پارلیمانی بورڈ اور پھراین ڈی اے کے اتفاق رائے سے نیتا چنے گئے۔ حالانکہ ہم نے بڑے بڑے لیڈروں کے منہ سے یہ جملے کئی بار سنے ہیں کہ پارلیمنٹ جمہوریت کا ایک مندر ہے لیکن منگلوار کو جب دیش اور دنیا نے دیکھا بھارت کے نامزد وزیر اعظم پارلیمنٹ کے اندر قدم رکھنے سے پہلے اس کے دروازے پر ماتھاٹیکتا ہے تو اس سے ہندوستانی جمہوریت کے تئیں بھروسے اور عظم کے ایک پائیدار نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ پارلیمنٹ کے سنیٹرل ہال میں منگلوار کو امنگ کے چوطرفہ لہراتے جذباتی ترنگوں کے درمیان پارلیمانی پارٹی کا لیڈر چنے جانے کے باوجود نریندر مودی نے حکومت اور سیاست کے اپنے ایجنڈے کو جذباتی لہر میں نہیں بہنے دیا اور اپنے جذبات کو قابو رکھتے ہوئے انہوں نے نہ صرف حکومت کی امکانی تصویر کا خاکہ پیش کیا بلکہ سیاسی اخلاقیات کا نیا پیمانہ طے کرنے اور سیاست کی لائن بدلنے کے اپنے ارادے بھی صاف ظاہر کردئے۔ بھاجپا اور این ڈی اے پارلیمانی پارٹی کا لیڈر چنے جانے کے بعد اب نریندر مودی کے لئے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لینا باقی ہے۔ صدر سے سرکار بنانے کی دعوت ملنے کے ساتھ ہی وہ نامزد وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ ایک طرح سے مودی کے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔ بیشک بھاجپا پارلیمانی پارٹی کا لیڈر چنے جانے کے دوران مودی جس طرح سے جذباتی ہو اٹھے اس سے دنیا نے ان کا ایک نیا چہرہ دیکھا۔ ایک مضبوط حکمراں کی ساکھ والے لیڈر کا ایسا چہرہ دیکھنا ایک نایاب لمحہ تھا۔ ان کی سادگی ان کی تقریر میں صاف جھلکی اور خاص کر تب جب انہوں نے کہا حکومت غریبوں، نوجوانوں اور ان کی عزت و ساکھ کے لئے ترستی ماں بہنوں کو وقف ہے۔ ا س دوران وہ اپنی تقریر میں اپنی ترجیحات کا تذکرہ بھی کرنا نہیں بھولے۔ فی الحال منگلوار کو مودی نے اپنے خاص انداز میں پانچ بڑے سوالوں پر اپنا موقف رکھا۔ سرکار کے پانچ سال کا ایجنڈا اسی دائرے میں نافذ ہوگا۔ انداز میں سنگھ کی آئیڈیا لوجی، واجپائی کا ماڈل اور مودی کا اپنا انداز تینوں شامل ہیں۔ پارلیمنٹ کو نمن۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کے تئیں عام لوگوں کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے اسے لوگوں نے ناکارہ لوگوں کا اڈہ بھی کہا ہے۔ مودی نے پارلیمنٹ کمپلیکس کی سیڑھیوں پر اپنا ماتھا ٹیک کر یہ پیغام دیا کے ان کی سرکار کے لئے پارلیمنٹ صحیح معنوں میں جمہوریت کا مندر ہوگا اور سبھی ممبران پارلیمنٹ کو اس کے تئیں وفاداری رکھنی ہوگی۔ جذباتی۔ مودی جذباتی ہوئے اڈوانی یہ کہہ چکے تھے کہ جو شخص جذباتی ہوتا ہے وہ اپنی تنقید اور زیادہ خوشی سے رو پڑتا ہے۔مودی کی پچھلے 12 برسوں سے مسلسل تلخ نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ سبھی اپوزیشن پارٹیوں نے ان پر حملے کئے۔ لوک سبھا چناؤ میں شاندار کامیابی کے بعد بھی مودی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو نہیں آئے۔ ایسے میں مودی کی جو پتھر دل ہونے کی ساکھ بنی ہوئی ہے اسے آنسوؤں کے ذریعے انہوں نے دھونے کی کوشش کی ہے۔مودی نے اپنی تقریر میں پچھلی سرکاروں کی نکتہ چینی نہیں کی بلکہ کہا پچھلی حکومتوں نے دیش کو آگے لے جانے کے لئے اپنے اپنے طریقے سے کام کیا۔ وہ (مودی) اپنے طریقے سے کام کریں گے۔اس کے ذریعے نریندر مودی نے صاف کیا کہ ان کی اصلی توجہ ترقی پر ہوگی۔ ان کی سرکار پچھلی سرکاروں کے خلاف اشو کھول کر وقت ضائع کرنے کی جگہ کام پر توجہ دے گی۔ توجہ طلب سیکٹر۔ مودی نے تقریر کے دوران غریب ،نوجوانوں ،خواتین کے لئے حکومت کو وقف کرنے کے جذبے سے کام کرنے کا اعلان کیا۔ چناؤ کے دوران بھول ہونے پر بھی مودی کی توجہ تھی۔ انہوں نے تنظیم اور سنگھ کے لحاذ سے2019 کے لئے ووٹ بینک کا نشانہ طے کرلیا۔ اس میں ذات ،مذہب سے اوپر اٹھ کر غریب نوجوان ، عورتوں سب کو شامل کیا گیا ہے۔ بھاجپا کے اندر اور باہر مودی کے نکتہ چینی کرنے والے ان پر الزام لگاتے رہے ہیں وہ سبھی کے ساتھ کام کرنے کے عادی نہیں ہیں وہ ایک تاناشاہ کی طرح کام کرتے ہیں اس لئے ان کے پی ایم بننے پر بھاجپا کے دیگر لیڈر حاشیے پر چلے جائیں گے جیسا گجرات میں ہوا مودی نے اپنی ساکھ کو یہ کہتے ہوئے صفائی دی کہ این ڈی اے کی ساتھی پارٹیاں ان کے لئے اتنی ہی ابھی بھی اہم ہیں جتنا بھاجپا کو اکثریت نہ ملنے پر ہوتیں۔ اس سے لگتا ہے این ڈی اے کی سبھی29 پارٹیاں سرکار چلانے میں شامل ہوں گی۔پنڈت دیندیال اپادھیائے کو اپنی تقریر کووقف کرتے ہوئے صاف کیا کہ اب ان کے لئے اپنے نظریات کوزمین پر اتارنے کا وقت آگیا ہے۔ دیش کے لئے یہ تسلی کی بات ہے کہ ان کا ہونے والا وزیر اعظم سب کی امیدوں پر کھرا اترنا چاہتا ہے۔ اس پورے خطاب میں نریندر مودی اپنے پر لگے سارے الزامات کے برعکس ایک سنجیدہ نرم گو اور جوابدہ اوتار میں نظر آئے۔ان کا یہ اوتار ہی ہے جو ان کے پرانے نیتاؤں سے انہیں الگ کردیتا ہے۔ وہ بیحد معمولی کنبے سے نکل کر آج اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں سے وہ دیش کو ایک نئی سمت دکھا سکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟