مودی کی پی ایم امیدواری کے وقت کولیکر بھاجپا میں گھمسان!

گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو بھاجپا کی جانب سے وزیر اعظم امیدوار بنانے کے اعلان پر پارٹی میں ایک رائے نہیں بن پارہی ہے۔ نریندر مودی نے بھلے ہی کہا ہو کہ انہوں نے بڑے عہدے پر جانے کا خواب نہیں دیکھا لیکن جس ڈھنگ سے وہ پچھلے کچھ دنوں سے چل رہے ہیں اس میں کسی کو شبہ نہیں کہ وہ پی ایم بننا چاہتے ہیں۔ چاہے وہ کتنا ہی انکار کیوں نہ کریں؟ مودی کی حمایت میں بھی بااثر لوگ ہیں اور مخالفت میں بھی۔ پہلے بات کرتے ہیں ان کو پی ایم امیدوار اعلان کرنے والے لوگوں کے بارے میں۔ ان میں سب سے اہم ہیں پارٹی کے راجیہ سبھا میں لیڈر ارون جیٹلی جو کہتے ہیں مودی کوپی ایم امیدوار بلاتاخیر اعلان نہ کرکے پارٹی بھاری خطرہ مول لے رہی ہے اور دیش میں کانگریس مخالف ماحول کا پورا فائدہ اٹھانے کے لئے جلد سے جلد انہیں پی ایم ان ویٹنگ اعلان کیا جائے۔ اب مودی کی حمایت میں بابا رام دیو بھی کود پڑے ہیں۔ رام دیو نے جمعہ کو دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ بھاجپا اس مہینے کے آخر تک نریندر مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار اعلان کردے نہیں تو وہ بھاجپا کی حمایت نہیں کریں گے۔ دیش نریندر مودی کی لیڈر شپ میں ہی طاقتور بن سکے گا۔دیش کو مہا نائک کی ضرورت ہے اور مودی وہ ہیں۔ دیش کے سرکردہ صنعت کارکئی موقعوں پر نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کی وکالت کرچکے ہیں۔ کارپوریٹ دنیا پر کئے گئے ایک سروے میں بھی اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ دیش کی موجودہ معیشت کو بحران سے نکالنے میں مودی پردھان منتری منموہن سنگھ سے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں۔ سروے میں زیادہ تر صنعت کاروں نے طریقے شرح کو پٹری پر لانے کے لئے مضبوط لیڈر شپ کی وکالت کی ہے جو مودی ہی دے سکتے ہیں۔ دوسری طرف نریندر مودی کو ابھی سے پی ایم امیدوار اعلان کرنے کی مخالفت میں کھڑی ہے خود بھاجپا۔ اس کے کئی لیڈر و وزیر اعلی مودی کو پی ایم امیدوار اعلان کرنے کے خلاف ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انہیں اعتراض وقت پر ہے۔ مثال کے طور پر مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیو راج سنگھ چوہان نے مودی کے نام کے جلداعلان کی یہ کہہ کرمخالفت کی کے نومبر میں ہونے والے مدھیہ پردیش اسمبلی چناؤ سے پہلے پی ایم امیدوار کا اعلان نہ کیا جائے۔ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ وزرائے اعلی اور ریاستی سرکاروں کے صلاح مشورے سے لڑے جائیں۔ اگر مودی کو ابھی سے پروجیکٹ کردیا گیا اور پارٹی کسی ریاست میں ہار جاتی ہے تو مودی کی امیدواری پر سوالیہ نشان لگ سکتے ہیں۔ نیویارک ٹائمس کے لئے ایک فری لانسر صحافی کو دئے گئے انٹرویو میں گووا کے وزیر اعلی منوہر پاریکر نے ایک اور تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گجرات میں 2002ء میں گودھرا کانڈ کے بعد ہوئے فساد مودی کے کردار پر داغ ہیں حالانکہ اس کے لئے مودی شخصی طور سے قصوروار نہیں ہیں۔ شیوراج چوہان اور پاریکر دونوں نے اب صفائی پیش کی ہے اور کہنا ہے کہ ان کا مقصد مودی پر حملہ نہیں تھا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق پارٹی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی اور سشما سوراج نے بھی اس اشو کو جمعہ کے روز آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت سے ملاقات کر اٹھایا تھا اور کہا تھاپارٹی مودی کو پی ایم امیدوار بنانے سے پہلے شیو راج چوہان اور پاریکر سے صلاح کرنی چاہئے۔ سنگھ کے چیف موہن بھاگوت دہلی میں ہیں اور وہ دباؤڈال رہے ہیں اور اس اشو کو سلجھانے میں لگے ہیں۔ سنگھ کے لئے یہ تشویش کی بات ہے کہ مودی کی مخالفت کرنے والے تیزی سے صف آرا ہو رہے ہیں۔ سنگھ کے پانچ سوال کن کو پی ایم امیدوار اعلان کرنا غیر ضروری لگتا ہے؟ کن کو مودی کی امیدواری ناپسند ہے؟ کن کا سروکار مودی کی امیدواری کے وقت کی میعادسے ہے؟ الگ الگ باتوں پر عام رائے بنانے کا کیافارمولہ ہے ؟ اور عام رائے نہ بننے پر کیا راستہ ہو؟ بھاجپا کے کئی نیتا چاہتے ہیں کہ پی ایم کے عہدے کے امیدوار کے لئے مودی کا نام جلد اس لئے اعلان ہونا چاہئے کے مودی کی مقبولیت پارٹی کو کئی سیٹیں دلوا سکتی ہے۔ نام پر کوئی تنازعہ رہنے سے پارٹی کو نقصان ہی ہوگا اور دوسری طرف مخالفت کی وجہ یہ ہیں مخالفین کا کہنا ہے کہ اگر مودی کی پی ایم امیدواری کا اعلان جلد ہوجاتا ہے تو مسلم اکثریت والی سیٹوں پر بھاجپا کومشکل ہوسکتی ہے اس لئے مودی کی امیدواری کا اعلان اسمبلی چناؤ کے بعد کیا جانا چاہئے۔ دیکھیں کے سنگھ چیف موہن بھاگوت بھاجپا میں چھڑے اس زبردست تنازعے کو سلجھا پاتے ہیں یا نہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟