ایڈیشنل سیشن جج یوگیش کھنہ کا دلیل و انصاف آمیز تاریخی فیصلہ!

وسنت وہار گینگ ریپ میں ساکیت کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج دھیرو یوگیش کھنہ نے ایک انتہائی اہم مشکل مقدمے میں ایک اچھا دلیل آمیز و انصاف پر مبنی فیصلہ سنایا ہے۔ اس مقدمے پر سارے دیش کی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ جسٹس کھنہ کے فیصلے میں کوئی لوچ نہیں دکھاسکتا۔ وسنت وہار اجتماعی آبروریزی معاملے میں ملزم رام سنگھ، پون گپتا، ونے شرما، اکشے ٹھاکرو نابالغ16 دسمبر 2012 کی رات واردات کو ہی انجام دینے کے لئے گھر سے نکلے تھے۔ ان سبھی نے منظم طریقے سے مجرمانہ سازش رچی۔ ملزمان کا مقصد نہ صرف اجتماعی آبروریزی کرنا تھا بلکہ متاثرہ کے ساتھ کئے گئے گھناؤنی اور غیر انسانی حرکت کے بعد اس کے دوست کا قتل بھی کرنا تھا۔ جسٹس یوگیش کھنہ نے 14 دلائل پر مبنی اپنے فیصلے میں لکھا ہے یہ دلیلیں اس طرح ہیں۔ ملزم جرم کے مقصد سے گھر سے نکلے تھے۔ متاثرہ دوست کے ساتھ بس میں بیٹھی تھی انہوں نے بس میں کسی دوسرے شخص کو نہیں بٹھایا کیونکہ وہ متاثرہ کے ساتھ واردات کرنے کے مقصد سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس میں سبھی کی رائے شامل تھی۔ متاثرہ جسمانی طور سے کمزور تھی۔ ملزم جسمانی طور سے مضبوط اس کا فائدہ اٹھایا اور واردات کو انجام دیا۔ ملزمان کو پتہ تھا کہ جسمانی طور پر متاثرہ لڑکی اور اس کے دوست پر حاوی ہوسکتے ہیں۔ اسی کے چلتے انہوں نے دونوں پر حملہ کیا۔ لاچار لڑکی اور اس کا دوست کچھ نہ کر پائے۔ اس واردات میں جس طرح لوہے کی چھڑ کا استعمال ہوا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب منظم طریقے سے ملزم متاثرہ سے اجتماعی آبروریزی کرنا چاہتے تھے اور اس پر قابو پانا چاہتے تھے اور اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے پر بے رحمانہ طریقے سے لوہے کی چھڑ متاثرہ کے نازک حصوں میں ڈالی و اس کے جسم سے بچے دانی کو باہر نکالا۔ اس سے تو یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ ملزم متاثرہ لڑکی کو مار ڈالنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں پتہ تھا ایسا کرنے سے کیا ہوگا ۔ ملزمان نے متاثرہ لڑکی اور اس کے دوست پر لوہے کی چھڑ سے حملہ کیا اور لڑکی کو پیچھے کھینچ کر لے گئے۔ اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے اس کے ساتھ6 ملزمان نے اجتماعی آبروریزی کی۔ متاثرہ لڑکی اس قدر لاچار ہوگئی کے وہ انہیں روک نہیں پائی۔ یہ واردات یہ ثابت کرتی ہے کہ جرم میں سبھی کی ایک رائے تھی۔ملزم رات میں سڑک پر بس چلا رہے تھے وہ بس کو مسافروں کے لئے نہیں بلکہ واردات کو انجام دینے کے لئے چلا رہے تھے۔ یہ واردات میں ملزمان کی اس ذہنیت کو اجاگر کرتی ہے کہ ملزمان نے جس طرح متاثرہ کے جسم کے اندرونی حصے کونکالا اور بعد میں بس کو ایسی جگہ روکا جہاں کوئی انہیں دیکھ نہ سکے۔ یہ ان کا مجرمانہ مقصد ثابت کرتا ہے۔ ملزمان نے متاثرہ و اس کے دوست کو بس کے پہئے کے نیچے کچلنے کی بھی کوشش کی۔ وہ اس واردات کو حادثے کی شکل دینا چاہتے تھے ۔ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ ملزم متاثرہ لڑکی و اس کے دوست کو مارنا چاہتے تھے تاکہ کوئی ثبوت نہ بچے۔ متاثرہ کی ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق اس کو 18 گہری اندرونی چوٹیں آئیں۔ یہ چوٹیں ظاہر کرتی ہیں کے ملزم متاثرہ کو ہی مارنا چاہتے تھے۔ ملزمان نے اس نایاب مجرمانہ حکمت عملی کواپنایا جو سوچی سمجھی سازش کے تحت متاثرہ کو سواری کی شکل میں بس میں بٹھایا گیا اور بعد میں مجرم نے جرم کو انجام دیا۔ معاملے میں ڈاکٹر کا بیان ثابت کرتا ہے کہ متاثرہ لڑکی کوجو زخم دئے گئے تھے ان کی وجہ سے ان کا کسی طرح سے بچنا مشکل تھا۔ ملزمان نے یہ زخم دئے تھے اور واردات کے وقت اس بات سے وہ اچھی طرح واقف تھے کے وہ کیا کررہے ہیں اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ متاثرہ لڑکی کے دوست کا بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ جس طرح سے دونوں کو بس میں چڑھایا اور دونوں پر لوہے کی چھڑ سے حملہ کیا جبکہ دوست تو گر گیا لیکن ملزم متاثرہ کو بس میں ہی پیچھے کھینچ لے گئے۔ محترم جج پولیس اور سرکاری فریق کی پیٹھ ٹھوکنے میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ معاملے کو جلد حل کرنے و ٹھوس ثبوت پیش کرنے پر عدالت نے اپنے فیصلے میں پولیس اور سرکاری وکیل کی تعریف کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ سرکاری مقدمہ لڑنے والے افسر مان کرشن اور مادھو کھورانہ ، اے ٹی انصاری اور راجیو موہن و عدالت کی مدد کے لئے مقرر وکیل راجیو جین کے تعاون سے عدالت کو معاملے کو جلد نپٹانے میں کافی مدد ملی۔ عدالت نے دہلی پولیس کی بھی جم کر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جانچ افسر سے لیکر ہر پولیس ملازم نے ٹھیک ڈھنگ سے اور صحیح طریقے سے ثبوت پیش کئے اس سے کیس کو مضبوطی ملی۔ ہم جج یوگیش کھنہ کو اس دلیل آمیز اور انصاف پر مبنی پختہ فیصلے کے لئے مبارکباد دیتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟