کوکراجھار میں نہ رکنے والے تشدد کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟

آسام کے کوکراجھار اور چرانگ ضلعوں میں پچھلے ایک ہفتے سے جاری فساد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے چرانگ ضلع سے تین اور لاشیں برآمد کی گئی ہیں جبکہ منگل کی رات فسادیوں نے ضلع کے پانچ دیہات میں گھروں کو جلا دیا۔اسی درمیان فوج کے جوانوں نے شورش زدہ علاقے میں فلیگ مارچ کیا۔کوکراجھار اور چرانگ ضلع میں بوڑو قبائل اور غیر قانونی طور سے بنگلہ دیش سے آئے مسلمانوں کے درمیان 19 جولائی کو شروع ہوئے اس جھگڑے میں اب تک 36 لوگ اپنے جان گنوا چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ آسام کے فساد کے چلتے شمال مشرقی ریاستوں میں ریل سروس بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کم سے کم 26 ٹرینوں کو منسوخ کرنا پڑا جبکہ31 ٹرینیں راستے میں ہی مختلف اسٹیشنوں پر روک دی گئی ہیں۔ اس کے چلتے30 ہزار سے زیادہ مسافر راستوں میں اسٹیشنوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے آسام کے وزیراعلی ترون گگوئی کو حالات پر قابو کرنے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کو کہا ہے۔ وزیراعظم نے انہیں فون کر کے بات کی اور متاثر افراد کو راحت پہنچانے اور ان کو پھر سے آباد کرنے کے لئے سبھی ضروری قدم اٹھانے کی ہدایت دی ہے۔ اس تشدد کی وجہ ابھی واضح نہیں ہو پائی ہے لیکن ایک رپورٹ کے مطابق 20 جولائی کی رات کو چار بوڑو قبائل کو مسلم اکثریتی گاؤں کوکراجھار ضلع میں تیز ہتھیار سے قتل کردیا گیا جس سے اس پورے علاقے میں پچھلے کئی دنوں سے زمین کو لیکر کشیدگی بنی ہوئی تھی۔ بوڑو لوگوں کا کہنا تھا بنگلہ دیش سے آئے غیر قانونی طریقے سے یہ مسلمان علاقے کی ساری زمین پر زبردستی قبضہ کرتے جارہے ہیں اور سرکار انتظامیہ تماشائی بنی ہوئی ہے۔ آل بوڑو لینڈ ٹیریٹوریل کونسل بہت دنوں سے ان بنگلہ دیشی گھس پیٹھ کے بارے میں خبردار کرتی رہی ہے لیکن ووٹ بینک کی سیاست کے چکر میں حکومت ہند اور آسام حکومت اس بڑھتے مسئلے کو نظر انداز کرتی آرہی ہیں۔ آج آسام کے کچھ حصوں میں بوڑو لوگ اپنے ہی گھر سے بے گھر ہوگئے ہیں کیونکہ ان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرلیا گیا ہے۔ پچھلے 40 برسوں سے آسام کسی نہ کسی مسئلے کو لیکر لڑائی اور ٹکراؤ کامیدان جنگ بنتا رہا ہے۔ 70 کی دہائی میں آسام گن پریشد نے اپنی کئی مانگوں کو لیکر تب تحریک چلائی تھی۔ مرکز کے اشارے پر سکیورٹی فورس نے پر امن مظاہرین پر بے رحمی سے گولیاں چلائی تھیں۔ آج بھی مرکز اور ریاستی دونوں جگہ کانگریس کا ہی اقتدار ہے لیکن مسئلہ اقتدار بنام جنتا نہ ہوکر جنتا بنام جنتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ علاقے کے باشندوں بنام ناجائز گھس پیٹھیوں کے درمیان ہے ۔ یہ صورتحال زیادہ خطرناک ہے۔ بوڑو قبائلیوں اور مسلم تنظیموں کے درمیان شروع ہوئے جھگڑے رکنے کے بجائے آگ کی طرح پھیل رہے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ حالات پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ مرکز سے نیم فوجی فورس اور فوج تک کی تعیناتی کردی گئی ہے۔ اس کے باوجود فساد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اگر جلد سے جلد آگ پر قابو نہیں ہوا تو یہ آگ شمال مشرق کی باقی ریاستوں میں پھیل سکتی ہے ایسے میں وہاں چین اور آئی ایس آئی کے گھس پیٹھیوں کو اپنا کھیل کھیلنے میں آسانی ہوجائے گی۔ دونوں اس علاقے میں کافی دنوں سے سرگرم ہیں اور ایسے ہی موقعے کی تلاش میں ہیں۔ اس لئے مرکز اور ریاستی سرکار کو جلد حل نکالنا ہوگا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟