کانگریس کس حد تک اتحادی دھرم نبھانے کو تیار ہے؟

یوپی اے سرکار کی مشکلیں تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ایک طرف تو سرکار کے اتحادی ساتھیوں نے حکومت اور کانگریس پارٹی کا ناک میں دم کررکھا ہے وہیں دوسری طرف کانگریس کے اندر بھی اب گھمسان مچ گیا ہے۔ راشٹروادی کانگریس پارٹی پہلے سے ناراض چل رہی ہے اور اب تو اس کے لیڈروں نے کانگریس لیڈر شپ کو وارننگ دینا شروع کردی ہے۔ راشٹروادی کانگریس پارٹی نے کانگریس کو وارننگ دی ہے کہ اگر یوپی اے اتحاد کیلئے تال میل کمیٹی اور ساتھیوں کے ساتھ مناسب برتاؤ جیسی ان کی مانگوں کا بدھوار تک کوئی حل نہیں نکلا تو وہ حکومت سے الگ ہوسکتی ہے۔ شرد پوار کی پارٹی نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ اگر وہ مرکزی سرکار سے الگ ہوتی ہے تو اس کا اثر مہاراشٹر میں اتحادی حکومت پر بھی پڑے گا کیونکہ ریاست کے لیڈر کانگریس یوپی اے کیبنٹ سے الگ ہونے کے حق میں ہے۔ راشٹروادی کانگریس پارٹی مہاراشٹر میں کانگریس سرکار کے ساتھ پچھلے 13 سال سے اتحادی محاذ میں ہے۔ ابھی اتحادی این سی پی کے ساتھ کانگریس کی تکرار رکی نہیں تھی کہ پارٹی کے اندربھی بغاوت شروع ہوگئی ہے۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلی پرتھوی راج چوہان کے خلاف انہی کے ممبران اسمبلی نے ان کی شکایت پارٹی ہائی کمان سے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چوہان اپنی منمانی کررہے ہیں۔ ولاس راؤ دیشمکھ کے حمایتی 42 ممبران اسمبلی نے ایک شکایتی خط ہائی کمان کو لکھا ہے۔ اس میں پارٹی ہائی کمان سے وزیر اعلی پرتھوی راج چوہان کو فوراً عہدے سے ہٹانے کی مانگ کی گئی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ادھر شردپوار اینڈ کمپنی بغاوتی تیور دکھا رہی ہے تو ادھر کانگریس پارٹی ممبر اسمبلی بھی اپنے وزیر اعلی کے خلاف چارج شیٹ پیش کررہے ہیں؟شرد پواردباؤ بنانے میں ماہر ہیں اور کانگریس لیڈر شپ میں وہی یہ کام آج کل کررہے ہیں۔ کانگریس کی مشکل یہ ہوتی جارہی ہے کہ پارٹی کو مرکزی اورریاستی سطح پر مسلسل تضادی سیاست سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مرکز کی سیاست کہتی ہے کہ اسے اتحادی اور حمایتی پارٹیوں سے اچھے رشتے رکھنے چاہئیں تاکہ منموہن سنگھ سرکار بنی رہے جبکہ اس کی ریاستی یونٹ اس کی خلاف ہے کیونکہ انہیں وہاں اسی سیاسی پارٹیوں سے دو دو ہاتھ کرنے پڑ رہے ہیں جس کو مرکز میں آج کل بیحد دلار مل رہا ہے۔اس میں پہلا نمبر ترنمول کانگریس کے ساتھ ہے۔ دہلی میں کانگریس کو جتنا زیادہ ترنمول کی ضرورت ہے مغربی بنگال کی کانگریس یونٹ کو اتنی ہی نفرت ترنمول سے ہے۔ اسے گذشتہ دنوں ترنمول سے بے عزت ہونا پڑا ہے۔ پردیش کانگریس صدر پردیپ بھٹاچاریہ تو کئی بار کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ آخرمرکز میں اقتدار کی خاطر ہم کب تک ترنمول کانگریس ورکروں سے پٹتے رہے ہیں؟ اوپر سے ممتا آئے دن یہ کہتے نہیں تھکتییں کہ کانگریس اس کا ساتھ کل چھوڑتی ہے تو آج چھوڑ دے۔ اب تو ممتا نے کھلے عام یہ اعلان کردیا ہے کہ مغربی بنگال کے آنے والے اسمبلی چناؤ بغیر کانگریس کے ہی لڑے گی۔ پچھلی بار بھی ٹکٹ بٹوارے میں کانگریس کے ترنمول سے بیحد بے عزتی کا سمجھوتہ کرنا پڑا تھا۔ مہاراشٹر میں بھی کانگریس این سی پی کو لیکر یہ ہی دکھڑا رو رہی ہے۔ کہاں تو وہ اقتدار میں برابر کی سانجھے دار ہے اور ملائی دار وزارت این سی پی نے اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے ہیں۔ مہاراشٹر کی کانگریس یونٹ کو یہ لگ رہا ہے کہ گھوٹالے پر گھوٹالے تو این سی پی کررہی ہے اور خمیازہ اسے نہ بھگتنا پڑ جائے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ریاستی یونٹ ایک وائٹ پیپر لانے کا مطالبہ کررہی ہے۔ شرد پوار اینڈ کمپنی کو یہ ڈر ستا رہا ہے کہ اگر کسی قسم کا وائٹ پیپر مہاراشٹر حکومت لیکر آتی ہے تو ان کے گھوٹالوں کا پردہ فاش ہوجائے گا جس کا خمیازہ اسے اسمبلی چناؤ میں بھگتنا پڑے گا۔ پرتھوی راج چوہان ایک ایماندار لیڈر کی ساکھ رکھتے ہیں اور وہ پوار اینڈ کمپنی کے دباؤ یا بلیک میلنگ میں نہیں آنے والے ہیں اس لئے اب پوار کی کوشش ہے کہ چوہان کو ہٹوا ہی دیا جائے۔ اسی طرح اترپردیش کانگریس یونٹ بھی دکھی ہے۔ پردیش کے ایم پی کہہ رہے ہیں کہ مرکزی سرکار دونوں ہاتھوں سے سپا کو پیسہ لٹا رہی ہے۔ اس کا استعمال اس کے ہی خلاف ہونا ہے۔ اگر سپا سے اسی طرح کے رشتے کانگریس نبھاتی رہی تو اگلے چناؤ میں کانگریس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ 22 کی جگہ وہ دو سیٹوں تک محدود ہوجائے گی۔ کل ملاکر کانگریس ہائی کمان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ مرکز میں اقتدار کی خاطر وہ ریاستوں میں اپنی یونٹوں کو کتنا نقصان پہنچانے کے لئے تیار ہے۔ ویسے ابھی تک تو کانگریس ہائی کمان کی یہ پالیسی رہی ہے کہ ریاست جائے بھاڑ میں مرکز میں اقتدار بنا رہنا چاہئے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟