کیا راہل گاندھی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کیلئے تیار ہیں؟

کانگریس سکریٹری جنرل راہل گاندھی نے جمعرات کو کہا کہ وہ پارٹی اور سرکار میں اب زیادہ سرگرم رول نبھانے کے لئے تیار ہیں لیکن یہ سب کب ہوگا اس بارے میں قطعی فیصلہ کانگریس صدر اور وزیر اعظم کو کرنا ہے۔ راہل گاندھی پچھلے 10 برسوں سے ہندوستانی سیاست میں سرگرم ہیں لیکن انہوں نے یہ پہلی بار کہا ہے کہ وہ اور سرگرم رول نبھانے کو اب تیار ہیں۔ ان کا بیان کانگریس صدر و ان کی والدہ سونیا گاندھی کے یہ کہے جانے کے بعد آیا ہے کہ بڑے رول کے بارے میں فیصلہ راہل کو ہی لینا ہے۔ سال 2014 ء میں ہونے والے عام چناؤ میں وزیر اعظم کی شکل میں راہل کو پیش کرنے کی قیاس آرائیوں کے درمیان کانگریس لیڈروں نے حال کے دنوں میں پارٹی کو قومی دھارا میں لانے کیلئے راہل سے اپیل کی تھی۔ کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ اور مرکزی وزیر سلمان خورشید یہ مانگ کرچکے ہیں لیکن معاملے نے طول اس وقت پکڑا جب سلمان خورشید نے یہ کہہ دیا کہ راہل سے کوئی باقاعدہ ہدایت نہیں مل رہی ہے اور اب تک راہل کے نظریات اور خیالات کا بہت چھوٹا سا حصہ دیکھنے کو ملا ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کو یہ معلوم ہے کہ بطور پی ایم ان کی آخری پاری ہے۔ پارٹی میں یہ خیال بن چکا ہے کہ منموہن سنگھ2014ء میں کانگریس کو لوک سبھا چناؤ نہیں جتا سکتے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے راہل گاندھی کو ایک بار نہیں کئی مرتبہ سرکار میں شامل ہونے کی دعوت دی مگر راہل گاندھی تیار نہیں ہوئے۔ کہا تو یہاں تک جاتا ہے کہ پارٹی کا ایک طبقہ چاہتا ہے راہل گاندھی سیدھے وزیر اعظم کی کرسی سنبھالیں ۔ مگر راہل میں خود اعتمادی کی کمی ہے یا پھر کانگریس کی اس اتحادی سرکار میں مجبوریوں کی وجہ سے راہل اپنے آپ کو بڑے رول کے لئے تیار نہیں کرپا رہے تھے۔ دراصل ہمیں لگتا ہے کہ ان میں خود اعتمادی کی کمی ہے۔ انہوں نے بہار ، اترپردیش، پنجاب میں پارٹی کا چناؤ لڑوایا اور تینوں جگہ کانگریس بری طرح ہار گئی۔ راہل گاندھی کو وزیر اعظم بنانے کی مانگ نئی نہیں ہے ۔ جب سے سونیا گاندھی نے وزیر اعظم کا عہدہ لینے سے انکار کیا ہے اور اپنی جگہ منموہن سنگھ کو وزیر اعظم بنوایا ہے، یہ کہا جاتا رہا ہے کہ راہل گاندھی کو وہ پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے تیار کررہی ہیں۔ اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ راہل گاندھی کو پارٹی کا ورکنگ صدر یا نائب صدر بنایا جائے۔ اس طرح سونیا گاندھی آہستہ آہستہ پارٹی کی باگ ڈور اپنے صاحبزادے کو سونپنا شرو ع کرسکتی ہیں اور پارٹی کی ایک سرپرستی کی حیثیت سے رہ سکتی ہیں۔ کانگریس کی یہ خوبی ہو یا برائی لیکن اس کی حقیقت یہ ہے کہ نہرو اور گاندھی واد سے وابستہ ہوکر ہی متحد اور مضبوط رہتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے کا اشو بنا کر کانگریس سے الگ ہوئے شردپوار اس یوپی اے اتحادمیں شامل ہوجائیں جس کی صدر سونیا گاندھی ہیں؟ یو پی اے سرکار سب طرح کے کرپشن اور گھوٹالوں میں چاہے آج کتنی ہی پھنسی کیوں نہ ہو لیکن کانگریسیوں کو بھروسہ ہے کہ کانگریس کا آج بھی کوئی متبادل نہیں ہے۔ دراصل ایک عرصے سے کانگریس کسی نہ کسی کرشمے کے سہارے ہی چل رہی ہے۔80 کی دہائی میں ابھری اور بدلتی شکل میں آج بھی جاری زمینی سیاست کے محاوے کانگریسی لیڈروں کی سمجھ میں نہیں آتے۔ گاؤں محلے کی سطح پر نیٹ ورک کھڑا کرنا اور لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرا دینا ان کے معیار سے میل نہیں کھاتا۔ وہ اسے ذات، خطہ یا فرقہ کی اوچھی سیاست بتاتے ہیں۔ حالانکہ بات بڑھ جانے کی امید ہو تو خود ان میں سے کوئی فارمولہ اپنانے سے نہیں ہچکتے۔ ان کی خواہش یہ ہی رہتی ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسا کرشمائی لیڈر اور کوئی معجزاتی نظریہ ہو جس کی مدد سے اقتدار پکے ہوئے آم کی طرح ان کے منہ میں ٹپک جائے۔ جس نہرو ۔گاندھی واد پر دیش میں اتنی باتیں ہوتی ہیں اس کی زمین اسی ذریعے سے تیار ہوتی ہے۔ یوپی اے محاذ راشٹرپتی اور نائب صدر کے چناؤ میں بیشک این ڈی اے پر نمبروں میں بھاری پڑ جائے لیکن اس سے زمینی حقیقت کا دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ آج یہ نہیں کہا جاسکتا کہ زمینی حقیقت یوپی اے یا کانگریس کے حق میں ہے۔ اس لئے اگر راہل گاندھی کوئی بڑا رول سنبھالتے ہیں تو ان کا پہلا بڑا کام 2014ء کے لوک سبھا چناؤ کے لئے تنظیم کو کارگر ڈھانچہ دینے کا ہوگا۔ راہل گاندھی یوپی اے سرکار میں چاہے جتنی بڑی ذمہ داری سنبھال لیں لیکن مہنگائی ، بے روزگاری ،ترقی اور مفاد عامہ سے وابستہ دیگر مورچوں پر یہ سرکار اپنے بچے دو سوالوں میں ایسا کوئی معجزہ شاید ہی کر پائے جو 2014ء میں لوگوں کو اس کی واپسی کے لئے پولنگ بوتھوں پر لائن لگانے کو مجبور کردے۔ یہ ایک پائیدار جمہوریت اور اپنے سیاستدانوں سے صبرو تحمل اور نرم گوئی اور دور اندیشی ہونے کی مانگ کرتا ہے۔ 2009ء کے عام چناؤ میں راہل جب اترپردیش میں 22 ایم پی بالکل ہوا کی طرح نکل آئے تھے تو یہ ان کی اسی الگ ساکھ کے ذریعے حاصل کئے گئے گیم چینر کردار کے ذریعے ممکن ہوا تھا۔ کانگریس کے اندر بھی راہل گاندھی کو لیڈر شپ سونپنے پر سوال کھڑے ہورہے ہیں۔ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ ابھی راہل کو پرائمری بنیادی تعلیم تک نہیں ہے اور ایسے میں انہیں دیش کی لیڈر شپ سونپے جانے جیسی بات بچکانی ہی سی لگتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ سینئر کانگریسیوں میں راہل کو ذمہ داری سونپنے کو لیکر کوئی جوش نہیں ہے۔ یوپی، بہار ، پنجاب میں راہل پرچار کے دوران پارٹی کی بد سے بدتر حالت کے باوجود ان کا بڑا رول سنبھالنا اب وقت سے پہلے جلد بازی نہ ہوجائے؟ پارٹی کی ایک لابی کی ایک صاف رائے ہے کہ پہلے راہل تنظیم میں بڑی ذمہ داری لیں اور سرکار میں کیبنٹ وزیر بن کر سرکار چلانے کا تجربہ لیں۔ راہل گاندھی کی جانب سے خود آگے آکر بڑی ذمہ داری لینے کی بات کرنے کے بعد ان امکانات کو تقویت ملنا فطری ہی ہے کہ وہ2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں وزیر اعظم عہدے کے امید وار ہوسکتے ہیں۔ یہ فطری بھی ہے ،لیکن بات تبھی بنے گی جب وہ اگلے چناؤ تک یوپی اے II- کے بچے دو برسوں کی میعاد میں کچھ ٹھوس کام کردکھانے میں کامیاب ہوتے ہیں؟

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟