اکثر پھسل جاتی ہے دگوجے سنگھ کی زبان

مجھے آج تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ کس حیثیت سے آئے دن بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ باتیں بھی وہ ایسی کرتے ہیں جن کا سنگین سفارتی و سیاسی مطلب نکلتا ہے۔ اگر وہ کانگریس کے ترجمان نہیں ہیں تو کس حیثیت سے اور کس کی شے پر وہ بیان بازی کرتے ہیں؟ ان کو کسی نہ کسی کی شے تو ضرورت حاصل رہی ہوگی؟ نہیں تو وہ پالیسی ساز بیان کیسے دے سکتے ہیں۔ تازہ مثال دگوجے سنگھ کی ممتا بنرجی کے خلاف ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر بیان بازی کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ترنمول کانگریس چیف ممتا بنرجی کو غیر سنجیدہ اور بددماغ بتایا تھا اور کہا کہ پارٹی کے صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ سنگھ نے یہ بھی کہا تھا کہ ممتا کو منانے کے لے پارٹی ایک حد سے آگے نہیں جائے گی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ دگوجے سنگھ نے ایسا بیان کیوں دیا؟ کیا یہ کانگریس کی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ تم بیان دے دو بعد میں ہم اس کی تردید کردیں گے۔ ممتا کو اشارہ بھی مل جائے گا اور پھر ہم پارٹی کو آپ کے بیان سے الگ کرلیں گے؟ یہ پہلی بار نہیں ہوا جب دگوجے سنگھ نے اس طرح کے متنازعہ بیان دئے ہوں۔ حال ہی میں دگوجے نے نائب صدر حامد انصاری کے بارے میں بھی رائے زنی کی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ انصاری کو دوبارہ نائب صدر بننا چاہئے۔ پارٹی کے ذرائع کی دلیل ہے کہ تب کانگریس صدر سونیا گاندھی کو اس بارے میں اختیار دے دیا گیا ہے تو پارٹی کے ذمہ دار لیڈروں خاص کر پارٹی کے سینئر عہدیدارن کو اس بارے میں بولنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ دگوجے سنگھ نے پارٹی صدر کو بھی نہیں بخشا انہوں نے ایک ٹی وی ملاقات میں کہا تھا کہ کانگریس صدر کے نیتا لیڈر بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ لیڈر آف دی ہاؤس بن سکتی ہیں ساتھ ہی کوئی ڈپٹی لیڈر ہوسکتا ہے۔ یوپی اسمبلی چناؤ میں کانگریس کی ہار کے بعد ان کے چناؤ کے دوران کئے گئے تبصرے پارٹی کی ہار کا سبب بنے۔ دگوجے سنگھ نے بٹلہ ہاؤس مڈ بھیڑ کو فرضی قراردے کر بھی پارٹی اور سرکار کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم کی نکسل مخالف پالیسی پر بھی انہوں نے متضاد رائے زنی کی تھی۔ انا ہزارے کی تحریک کے دوران بھی آئے دن دگوجے اوٹ پٹانگ تبصرے کرتے رہے۔ آخر کار کانگریس لیڈر شپ کو دگوجے سنگھ کے بڑ بولے پن کے خلاف قدم اٹھانا پڑا۔ پارٹی نے دگوجے سنگھ کے بیانات سے اپنے کو جہاں الگ کرلیا وہیں کھلے طور پر صفائی دی کہ وہ میڈیا سے بات کرنے کے لئے سرکاری طور سے بااختیار نہیں ہیں۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب کانگریس کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ دگوجے سنگھ کی باتوں کو پارٹی کے نظریات نہ مانیں جائیں یعنی ایک طرف تو کانگریس نے یہ صاف کرکے تاثر دیا ہے کہ میڈیا کی باتوں کو کانگریس کا نظریہ نہ مانیں وہیں دوسری طرف کانگریس نے دگوجے سنگھ کو بھی درپردہ طور پر خبر دار کردیا ہے کہ وہ میڈیا میں بیان دینے سے باز آئیں۔ دگوجے سنگھ کے متنازعہ بیانات سے ناراض پارٹی نے انہیں مختلف سیاسی اشوز پر پارٹی کی جانب سے بولنے پر روک دیا ہے۔ کانگریس میڈیا محکمے کے چیئرمین اور کانگریس سیکریٹری جنرل جناردن دویدی نے یہ بیان جاری کرکے کہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بیان کانگریس صدر سونیا گاندھی کی ہدایت پر جناردن دویدی نے دیا ہے۔ دیکھیں کیا دگوجے سنگھ پر اس کا کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟