راشٹرپتی چناؤ دنگل کا دوسرا باب

اگر جمعرات کا دن ممتا بنرجی اور ملائم سنگھ یادو کے نام رہا تو جمعہ کا دن یقینی طور سے سونیا گاندھی کے نام رہا۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے ممتا کی چنوتی کو قبول کرتے ہوئے پرنب مکھرجی کو یوپی اے کا صدارتی امیدوار اعلان کردیا۔یہ ہی نہیں شام ہوتے ہوتے ملائم سنگھ یادو اپنی عادت کے مطابق پلٹی کھاگئے اور انہوں نے پرنب کو حمایت دینے کا اعلان کیا۔ بسپا چیف مایاوتی نے بھی یوپی اے امیدوارکی حمایت رسمی طور پر کردی ہے۔ نمبروں کے حساب سے پرنب مکھرجی کا پلڑا بھاری ہے۔ صدارتی چناؤ کے لئے کل ووٹ ہیں 10988821 کیلئے 549442 ووٹ درکار ہیں۔ یوپی اے+ سپا+ بسپا + آر جے ڈی اگر جڑ جائیں تو یہ 571644 ووٹ بنتے ہیں جبکہ این ڈی اے کے پاس کل304785 ووٹ ہی رہ جاتے ہیں۔ اس لئے نمبروں کے حساب سے مسٹر پرنب مکھرجی کا صدر بننا طے ہے حالانکہ ممتا بنرجی ابھی بھی کہہ رہی ہیں کہ کھیل ابھی باقی ہے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے؟ کیا کانگریس پارٹی کی اب بھی کوشش ہے کہ پرنب دا کا انتخاب اتفاق رائے سے ہوجائے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پرنب دا کے نام کا اعلان ہونے کے بعد لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج کو فون کرکے بھاجپا کی حمایت مانگی۔ سونیا گاندھی نے بھی اعلان کے بعد ہی سبھی ممبران پارلیمنٹ ،ممبران اسمبلی سے اتفاق رائے سے صدر چننے کی اپیل کی۔ ویسے کہیں بہتر ہوتا کہ کانگریس پرنب دا کے نام کے اعلان سے پہلے تمام اپوزیشن کو اعتماد میں لیتی۔ اتفاق رائے کا مطلب ہوتا ہے مل کر امیدوار کا انتخاب کریں نہ کے آپ پہلے انتخاب کرلیں اور بعد میں اتفاق رائے کی بات کریں۔ کانگریس نے پورے معاملے میں گمراہ کیا ہے۔ انہوں نے صدرارتی عہدے کا مذاق بنا دیا ہے۔ آج سارا دیش، دنیا، بھارت میں ہورہے اس اعلی ترین عہدے کے چناؤ کے دنگل پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ کسی بھی نظام حکومت میں پالیسی ساز وقار کی تعمیل کیا جانا ضروری ہے۔ اس کی ذمہ داری زیادہ تر حکمراں فریق کی ہوتی ہے جمہوری نظاموں میں سیاسی تقاضوں کا تعین آئین میں ہیں کردیا جاتا ہے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ایسے آئینی تقاضوں کا نظام چلانے والے خود ہی اس کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ دیش کی آزادی کے بعد پہلی بار صدارتی عہدے کو لیکر اس طرح کا دنگل دیکھنے کو مل رہا ہے جیسا کہ بھانمتی کے کنبے میں زلزلہ آگیا ہو۔ دیش کے صدر جیسے عہدے کے لئے اتنی اتھل پتھل دیش کی سیاست کے لئے اچھا اشارہ نہیں مانا جاسکتا۔ جب سے سیاست میں علاقائی پارٹیوں کی سانجھے داری بڑھی ہے تب سے دیش کی عوام کے جذبات کی عدولی کے لئے بلیک میلنگ کا سسٹم چل پڑا ہے۔ آج عوام کے ذریعے چنے گئے نمائندے و پارٹیاں اپنی اپنی ریاستوں کے لئے پیکیج سسٹم ملنے پر حمایت دینے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ نیتاؤں کی ذاتی خواہشات صحت مند جمہوری روایات پر بھاری پڑتی نظر آرہی ہے۔ آئینی طور پر صدر دیش کے آئین سازیہ اور انتظامیہ کا پردھان ہوتا ہے بغیر اس کے دستخط کے کوئی بھی بل قانون کی شکل نہیں لے سکتا۔جس کے نام پر مرکزی سرکار کے سارے کام کاج نمٹائے جاتے ہیں لیکن یہ صرف ایک تلخ حقیقت ہے۔ سب کچھ تو صدر پردھان منتری کے کہنے پر کرتا ہے لیکن قاعدے کے مطابق صدر کو پارٹی لائن سے اوپر ہونا چاہئے۔ سبھی پارٹیوں کا کیا فرض ہوتا ہے کے اسے سب سے اوپر دیش کے آئینی سربراہ کے طور پر دیکھیں اور احترام دیں۔ تقاضہ تو یہ کہتا ہے کہ صدر وہ شخص ہو جو سبھی پارٹیوں کو قابل تسلیم ہو جس کی غیر جانبداری عہدے کے وقار اور تقاضے سبھی مانیں اور اس کو ایک آزادانہ انداز سے دیکھا جائے تو کسی ایک نام پر اتفاق رائے ہونے میں کسی بھی پارٹی کا کوئی نفع نقصان نہیں ہے۔ لیکن سیاست کے کھیل میں سیاسی غرور اور ذاتی مفاد سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کل ملا کر دیکھا جائے تو مسٹر پرنب مکھرجی صدر کے عہدے کے لئے موزوں شخص ہیں۔ ان کا طویل تجربہ و قابلیت خود منہ سے بولتی ہے۔ کانگریس کے سنکٹ موچک مانے جانے والے پرنب دا کی سرکار اور کانگریس پارٹی کو کبھی ضرور کھلے گی۔ ابھی2014ء عام چناؤ دور ہیں۔ پرنب دا کو صدر بنانے کے پیچھے بھی کئی وجہ ہیں۔ وزیر اعظم انہیں وزارت مالیات سے ہٹانا چاہتے تھے لیکن انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے ہٹائیں؟ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پرنب دا اور سونیا گاندھی میں بھی رشتے اچھے نہیں۔ سونیا گاندھی ان پر بھروسہ نہیں کرتیں، کچھ غیر ملکی طاقتیں بھی پرنب دا سے ناراض رہتی تھیں۔ صنعت کار خوش نہیں تھے ، اس لئے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کانگریس نے کوشش کی ہے۔ پرنب دا کا انتخاب اس لئے بھی کیا گیا کیونکہ کانگریس کا اندازہ تھا کہ حامد انصاری، اے پی جے عبدالکلام سے جیت نہیں سکتے۔دوسرا باب یقینی طور سے سونیا گاندھی اور کانگریس کے نام رہا۔ دنگل جاری ہے 30 جون تک بھارت کی سیاست کئی اور کروٹیں لے سکتی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟