صدارتی چناؤ کے دنگل کا تیسراباب

صدارتی چناؤ کے تیسرے باب کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ چناؤ دنوں کانگریس اتحاد اور اپوزیشن کے لئے اپنے اپنے اسباب سے ایک سیاسی چیلنج بن گیا ہے۔ پہلے بات کرتے ہیں این ڈی اے کی۔ سابق صدر اے پی جے عبدالکلام کے چناؤ لڑنے کے انکار سے این ڈی اے میں اب آپسی پھوٹ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ این ڈی اے اتحادی پارٹیوں کی دو میٹنگیں ہوچکی ہیں لیکن کوئی حکمت عملی نہیں بن پارہی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ سمجھی جارہی ہے کہ بھاجپا کے سرکردہ لیڈر بھی یوپی اے کے امیدوار پرنب مکھرجی کے مقابلے اپنا امیدوار اتارنے نہ اتارنے کو لیکر شش و پنج میں مبتلاہیں۔ یہ بحث بھی جاری ہے کہ اب جب ڈاکٹر کلام دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں تو کیا ایسے میں لوک سبھا کے سابق اسپیکر پی اے سنگما کو ہی اپنی حمایت دے دی جائے؟ بھاجپا کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی صدارتی چناؤ لڑنے کے خواہش مند بتائے جارہے ہیں۔ اڈوانی جی کہتے ہیں کہ جمہوریت میں چناؤ لڑنا ضروری ہوتا ہے۔ وہ یوپی اے امیدوار کو بلامقابلہ نہیں جتانا چاہتے۔ ذرائع کے مطابق بھاجپا صدر نتن گڈکری ہار کی فضیحت سے بچنے کے لئے امیدوار اتارنے کے حق میں نہیں ہیں۔ارون جیٹلی بھی گڈکری کے ساتھ ہیں۔ سابق پردھان راجناتھ سنگھ ،وینکیا نائیڈو، مرلی منوہر جوشی نے2007ء کی تاریخ یاد کرائی۔ اس وقت نائب صدر بھیروسنگھ شیخاوت نمبروں کی طاقت نہ ہونے پربھی میدان میں کود پڑے تھے۔ امیدوار اتارنے کے لئے اڈوانی ، سشما سوراج کی ضد کے پیچھے سبرامنیم سوامی کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں صدارتی چناؤ سے آگے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اگر ہم جے للتا، نوین پٹنائک اور ممتا بنرجی کو یو پی اے سے دور کرلیتے ہیں تو 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں ہمیں این ڈی اے کو پھیلانے کا اچھا موقعہ ملے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر ہم چناؤ پر اڑے رہے تو یوپی اے ہمیں شاید نائب صدر کا عہدہ دے دے؟ پھر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اب تک بھارت کے صدر کے لئے کوئی متفقہ طور پر نہیں چنا گیا۔ ہار جیتنے والے امیدوار کو چناؤ لڑنا پڑاہے اور چناؤ لڑنے کے بعد ہی وہ رائے سناہلز پہنچا۔ ہاں اب چناؤ میں کاکا جوگیندر سنگھ دھرتی پکڑ جیسے تماش بینوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اڈوانی بار بار 1969ء کے صدارتی چناؤ کا ذکر کررہے ہیں۔ صدارتی عہدے کے لئے1969ء کا چناؤ کئی معنوں میں انوکھا رہا ہے۔ جب وی وی گری اور نیلم سنجیوا ریڈی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا تھا۔ اڈوانی جی نے کہا کہ 1969ء کا صدارتی چناء تاریخی تھا اور 2012 ء کا یہ چناؤ بھی اپنے آپ میں سنسنی خیز ہے۔ اس وقت کے صدارتی چناؤ نے اس وقت رہیں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کانگریس پارٹی کے سرکاری امیدوار کو ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کی اپیل کرکے ہروایا تھا۔ وہ ایک غیر معمولی چناؤ تھا یہ سنسنی خیز چناؤ ہے۔ صدارتی چناؤ کے لئے طے لگ رہا ہے مقابلے میں دوسری لائن کے ووٹوں کا حساب اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر یوپی اے امیدوار پرنب مکھرجی کو دوسری طرف سے سخت ٹکر دینے والا کوئی مضبوط امیدوار میدان میں اترتا ہے تو 1969ء کی طرح صدراتی چناؤفیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر تجزیئے بہت نہیں بدلتے ہیں تو پرنب دا اور سنگما میں ٹکر ہوسکی ہے۔ مکھرجی کے نام پر این ڈی اے میں اتفاق رائے نہ بننا اور سنگما کا میدان میں ڈٹے رہنے کا اعلان دوسری ترجیح کے حساب کو راستہ مل رہا ہے۔ حالانکہ ابھی تک صرف ایک بار 1969ء میں یہ چناؤ فیصلہ کن ثابت ہوا ہے۔ اس وقت وی وی گری نمبر دو کی گنتی میں چناؤ جیتے تھے۔ اپوزیشن اگر پرنب کے خلاف متحدہوجاتی ہے تو قبائلی طبقے کا ہونے کے سبب دوسری ترجیح میں پی اے سنگما کو کراس ووٹنگ مل جائے تو مقابلہ دلچسپ ہو سکتا ہے۔ مثلاً1969ء میں کانگری کے امیدوار نیلم سنجیوا ریڈی تھے اور وی وی گری آزاد امیدوار تھے۔ کانگریس دو گروپوں میں بٹ چکی تھی۔ ایک پرانی کانگریس جس کے چیف مرارجی ڈیسائی ہوا کرتے تھے اور دوسری نئی کانگریس جس کی کرتا دھرتا اندرا گاندھی ہوا کرتی تھیں۔ صدارتی چناؤ میں پارٹی وپ لاگو نہیں ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اندرا جی نے کانگریسیوں سے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ نتیجتاً وی وی گری کو دوسری ترجیح میں زیادہ ووٹ ملے اور وہ کامیاب ہوئے۔ کانگریس کے امیدوار پرنب مکھرجی کی مخالفت ٹیم انا بھی کررہی ہے۔ ٹیم کا کہنا ہے کہ صدر بننے سے پہلے ان پر لگے کرپشن کے الزامات کی آزادانہ جانچ ہونی چاہئے۔ ٹیم انا کے ممبر اروند کیجریوال نے ایتوار کو جودھپور میں کہا کہ پرنب مکھرجی دیش کے آئینی عہدے کے امیدوار ہیں اس لئے جو اس عہدے پر فائض ہو اس کی ساکھ صاف ستھری ہونی چاہئے۔ سال2005ء کے بحری وارروم افشاں معاملے میں پرنب کا کردار مشتبہ ہے۔ ان پر چاول برآمدات گھوٹالے کے بھی الزامات ہیں۔ ان معاملوں میں ان کے کردار کی جانچ ہونی چاہئے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ نے صفائی دی ہے کہ انہوں نے کانگریس سے کوئی سودے بازی نہیں کی ہے۔یہ تو دلال لوگ کرتے ہیں۔ ملائم کہتے ہیں کہ اگر ممتا سونیا گاندھی سے ملنے کے بعداعلان نہیں کرتیں کہ کانگریس دو ناموں کو آگے بڑھا رہی ہے پرنب مکھرجی اور حامد انصاری تو سونیا گاندھی کچھ اور کھیل ہی کھیل سکتی تھیں۔ اگر13 جون کو10 جن پتھ جانے سے پہلے تک ترنمول کانگریس کی لیڈر ممتا بنرجی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ کس امیدوار پر کانگریس داؤ لگانا چاہتی ہے تو پھر کس کو پتہ تھا؟ سونیا گاندھی کی جانب سے بتائے گئے دو ناموں پرنب مکھرجی۔ حامد انصاری کو ممتا ظاہر نہیں کرتیں تو اس پر معمہ بنا ہی رہتا۔ 2007ء میں سونیا گاندھی نے آخری وقت میں پرتیبھا پاٹل کی نامزدگی کر یہ پیغام دیا تھا کہ وہ کس طرح کے شخص کو راشٹرپتی بھون میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ممکن تھا کہ اگر ممتا کانگریس کی پسند کو پبلک نہیں کرتی تو آخری وقت میں سونیا میرا کمار یا حامد انصاری کا نام اعلان کر دیتیں۔ ملائم نے کہا ہم تو ہمیشہ سے پرنب کو ہی چاہتے تھے لیکن سونیا کو پرنب پر بھروسہ نہیں تھا۔ اس بار راشٹرپتی چناؤ کو لیکر روز بروز پس منظر بدل رہا ہے۔ کچھ بھی دعوے سے کہنا مشکل ہے۔ ابھی وقت باقی ہے اور بھی باب سامنے آسکتے ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟