پاکستان میں زرداری کے مستقبل کولیکر قیاس آرائیاں


Published On 10th December 2011
انل نریندر
پاکستان میں افواہوں کا بازار ایک بار پھر گرم ہوگیا ہے۔ وجہ اس بار یہ ہے کہ اچانک پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اپنا علاج کرانے کے لئے دوبئی چلے گئے ہیں۔ پاکستانی حکام حالانکہ کہہ رہے ہیں صدر صاحب اپنے معمول کے چیک اپ کے لئے دوبئی پہلے سے ہی طے شدہ پروگرام کے مطابق گئے ہیں اور جلد واپس آجائیں گے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا کچھ اور ہی کہنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خفیہ خط تنازعہ اور نیٹو حملے کے بعد زرداری پاکستانی فوج کے دباؤ میں آکر استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ امریکی میگزین 'فارن پالیسی' نے دعوی کیا ہے اوبامہ انتظامیہ کے حکام نے بتایا ہے پاکستانی فوج کی طاقتور جنرل کے بڑھتے دباؤ کے سبب علاج کے لئے وہ دوبئی گئے۔ زرداری واپس نہیں آئیں گے اور وہیں سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ سوال یہاں یہ بھی کیا جارہا ہے کہ دوبئی میں کونسا علاج ہوتا ہے۔ دوبئی میں تو کوئی ایسا میڈیکل سینٹر ہی نہیں جہاں امراض قلب کا کوئی خاص علاج ہوتا ہے۔ اگر انگلینڈ یا امریکہ کی بات ہوتی تب بھی سمجھ میں آنے والی تھی لیکن دوبئی میں تو ویسے ہی میڈیکل سہولیات ہوں گی جیسی اسلام آباد میں ہیں۔ دوبئی علاج کرانے کی بات گلے سے نہیں اترتی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیرونی ممالک میں تعینات پاکستانی سفارتکاروں کو وطن بلایا جارہا ہے ۔اسی درمیان ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے پاکستانی فوج کے ڈاکٹروں کے ذریعے پوری طرح صحت یاب قرار دئے جانے کے بعد زرداری علاج کے لئے دوبئی روانہ ہوئے۔ اخبار 'نیو انٹرنیشنل' کا کہنا ہے مسلح فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) کے ڈاکٹروں نے جانچ کے بعد زرداری کو پوری طرح تندرست پایا تھا۔ صدر کے ترجمان بابر نے حالانکہ اس بات سے انکار کیا کہ اے ایف آئی سی میں زرداری کی ڈاکٹروں نے کوئی طبی جانچ کی تھی۔
پاکستانی صدر اور فوج کے رشتے بد سے بدتر ہوگئے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں امریکی کارروائی میں مارے جانے کے بعد فوج نے سرکار پر انگلی اٹھائی تھی۔ ان حالات میں فوجی تختہ پلٹ کے اندیشہ کو لیکر زرداری نے امریکہ سے مدد مانگنے کے لئے ایک خفیہ خط پاکستان کے امریکہ میں معمور سفیر حسین حقانی کے ذریعے سے بھیجا تھا۔ اس میں انہوں نے پاکستانی فوج کی برھتی طاقت اور ان کے تختہ پلٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ امریکہ سے ان کی سرکار کو بچانے کی مدد مانگی گئی تھی۔ اس خط کے افشا ہونے سے فوج اور زرداری میں کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ رہی سہی کثر 26 نومبر کو ناٹو فوج کے ذریعے پاکستانی چوکی پر ہوئے حملے نے پوری کرڈالی اس میں24 پاکستانی فوجیوں کی موت ہوگئی تھی۔ ناٹو حملے کے احتجاج میں مسلسل مظاہرے ہورہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں اور جنتا دونوں میں سرکار کے خلاف نارضگی بڑھتی جارہی ہے اس سے بھی زرداری پر استعفیٰ دینے کیلئے دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔بدھوار کو زرداری کے بیٹے بلاول بھٹو اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہوئی ملاقات نے بھی کچھ گڑ بڑ ہونے کے اشارے دئے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ سب قیاس آرائیاں ہوں اور زرداری جلد دوبئی سے وطن لوٹ آئیں۔ لیکن اتنا طے ہے پاکستان کے سیاسی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے اور کوئی معجزہ ہی انہیں بچا سکتا ہے اور مستقبل قریب میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
Anil Narendra, Asif Ali Zardari, Daily Pratap, Pakistan, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟