دیو صاحب کے دیہانت سے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا


Published On 7th December 2011
انل نریندر
سدا بہار اداکار دیو آنند اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ 65 سال تک پردے پر اجلے رومانس کا خالق چلا گیا۔ ہر فکر کو دھوئیں میں اڑانے والے دیو آنند کا لندن میں دیہانت ہوگیا۔ آپ کی عمر85-88 برس تھی۔ وہ کہا کرتے تھے میں اس دنیا سے جب رخصت ہوجاؤں تو کام کرتے ہوئے جاؤں اور ویسے ہی انہوں نے کیا ۔ وہ آخری وقت تک اپنے کام میں مشغول تھے۔ کام کرنے کی طاقت دیو صاحب میں غضب کی تھی۔ انہوں نے100 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ ان سے جب کسی نے پوچھا کہ آپ کے جواں رہنے کا راز کیا ہے، تو کہتے تھے میں نئے زمانے کی سوچ کے ساتھ چلتا ہوں۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ان کی کئی فلمیں وقت سے آگے کی تھیں۔ مثال کے طور پر 'گائڈ، ہرے رام ہرے کرشنا' اپنے وقت سے کافی آگے کی تھیں۔ جب دیو آنند بھارتیہ سنیما میں آئے تو ان کی خوبصورتی سے اور اپنے انداز سے وہ بالی ووڈ میں چھا گئے۔ وہ اتنے ہینڈ سم تھے کہ جوان لڑکیاں ان کی ایک جھلک پانے کیلئے ترستی تھیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہیرو کی خوبصورتی بہت زیادہ اہم ہوا کرتی تھی۔ آج تو شکل صورت پر کوئی اتنا توجہ نہیں دی جاتی۔ دیو آنند بلا شبہ ہندوستانی سنیما کے انتہائی ہینڈسم اداکاروں میں سے ایک تھے۔ وہ کہتے تھے کہ خواب ضرور دیکھو، لیکن انہیں پورا کرنے کا معدہ بھی ہونا چاہئے۔ انہوں نے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ ان کی فلم ہٹ ہے یا فلاپ۔ فلم کی باکس آفس میں ناکامی نے انہیں نئی فلم بنانے سے کبھی نہیں روکا۔ پاکستان سے آئے دیو صاحب نے بہت معمولی نوکری سے اپنی زندگی بسر کرنا شروع کی۔ پھر ایسے چھائے کہ 50 سال سے زیادہ تک راج کرتے رہے۔چار سال پہلے جب اس سدا بہار اداکار دیو آنند کی سوانح حیات لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچی تو شاید کسی کو اس بات کی حیرانی ہوئی ہوگی کہ انہوں نے اس کا نام 'رومانسنگ ود لائف' رکھا۔ اس میں انہوں نے اپنی زندگی کے کامیابی کے ہر پہلو کو پیش کیا۔ سدا بہار اداکار دیش کے پہلے اسٹائل آئی کان کیمرے کی دنیا کے تئیں اتنے طلسم نہیں تھے بلکہ اس رومانس کے کینوس کو ناکام پریمی سے لیکر ہر دلعزیزی کی سترنگی شخصیت کے مالک تھے۔ تبھی تو ان کے بعد کی پیڑھی کے اداکار رشی کپور کہتے ہیں کہ دیو آنند میرے والد کی عمر کے تھے لیکن ان کے جینے کا انداز میرے بیٹے رنبیر کپور کی عمر کا تھا۔ان میں ہمیشہ جوان رہنے کا کریز تھا۔ ان کی ہی فلم کے ایک مشہور گانے کی طرز پر کہیں توہر صورت میں زندگی کا ساتھ نبھانے کا صبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جسے انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا بلکہ آخری دم تک اسے نبھایا۔ امیتابھ بچن نے اپنی شردھانجلی میں کہا کہ ان کے بعد ان کی جگہ دوبارہ بھری نہیں جاسکتی۔دیو صاحب کی کبھی بھی اپنی پرانی فلموں کو نہیں دیکھتے تھے۔ ان کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر طبقے کے شخص سے بات کرتے تھے۔ ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے تھے۔ ایمرجنسی کے دوران انہوں نے سیاست میں جانے کا من بنایا تھا۔ اس دوران ان کی مقبولیت آسمان پر تھی اگر وہ چناؤ لڑتے تو ضرور جیت جاتے لیکن سیاست سے ان کا دل مایوس ہوگیا تھا۔ دیو صاحب جاتے جاتے ہمیں یہ ہی سکھا گئے کہ آپ کو جو پسند ہو اسی طرح زندگی بسر کرو۔ وہ ہی کرو جس میں آپ کو سب سے زیادہ مزہ آتا ہے۔ اپنے پیار سے سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر وہ سچا ہے تو لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔ آپ کو وہ عزت ملے گی جس کے آپ حقدار ہیں۔ دیو آنند کی آخری خواہش تھی کہ میرے مردہ جسم کو میرے دیش مت لے جانا، میں چاہنے والوں کی آنکھوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ الوداع سدا بہار دیو صاحب۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Dev Anand, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟