اور اب سرکار کا نشانہ سوشل سائٹس پر


Published On 9th December 2011
انل نریندر
مرکزی وزیر مواصلات کپل سبل کو تنازعات میں گھرے رہنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ پہلے انا ہزارے معاملے میں، پھر بابا رام دیو معاملے میں اور اب سوشل نیٹ ورکنگ کو لیکر وہ سرخیوں میں آگئے ہیں۔ کپل سبل نے اب گوگل ، یاہو، مائیکرو سافٹ و فیس بک جیسی سوشل سائٹوں پر فحاشی و قابل اعتراض اور توہین آمیز میٹر ڈالنے پر روک لگانے کا عہد کیا ہے۔ سبل کا کہنا ہے ان پر وزیراعظم منموہن سنگھ ، کانگریس صدر سونیا گاندھی و کچھ مذہبی فرقوں کے خلاف قابل اعتراض میٹر ڈالے ہوئے ہیں جنہیں فوراً ہٹانا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا سرکار ان سوشل ویب سائٹوں پر کسی طرح کی سینسر شپ نہیں لگانا چاہتی لیکن قابل اعتراض مواد کو ہٹانے کیلئے ایک کنٹرول سسٹم نافذ کرنا چاہتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا اگر ان ویب سائٹوں نے ایسا نہیں کیا تو حکومت کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ ان کا یہاں تک کہنا تو ٹھیک ہے کے ایسی پبلک ویب سائٹوں پر سب کو قابل قبول پیمانوں کو اپنانا چاہئے اور فحاشی کو بڑھاوا نہیں دیا جانا چاہئے لیکن ان پر کسی طرح کی پابندی کی مخالفت کررہے ہیں مذہبوں کے خلاف گمراہ کن پروپگنڈہ اور فرقہ وارانہ نفرت پر روک لگانے کا ایک علیحدہ معاملہ ہے خاص طور پر بھارت کے حالات کو دیکھتے ہوئے ان سوشل سائٹوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسی فحاشی چیزیں روکنے میں وہ پختہ انتظام کریں۔ لیکن جہاں تک سوال وزیر اعظم یا کانگریس صدر کے خلاف ان ویب سائٹوں پر ڈالے جانے والے میٹر کا ہے وہ تو اس بارے میں کسی طرح سے روک لگانا شاید ہی سرکار یا کانگریس کے مفاد میں ہو۔ انٹرنیٹ ہی صحیح معنوں میں جمہوری طریقہ ہے جو بلا مفاد میڈیا مشینری ہے اور تنخواہ دار صحافیوں سے مستثنیٰ ہے ۔ فیس بک جیسی ویب سائٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور کئی ملکوں میں لوگ اس کا کثیر تعداد میں استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں اس پر کنٹرول کیسے ہوگا؟ دیش کے کچھ علاقوں یا گلیوں یا محلوں میں چل رہی انٹر نیٹ سیوا کو روک سکتے ہیں لیکن دنیا کے اتنے ملکوں کے لئے یکساں فلٹر کی میکنزم بہت مشکل ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ میں کئی کارناموں کی بنیاد رکھی ہے۔ مصرکے حالات کی تفصیلات تو اسی کی ایک دین ہے۔شاید انہی وجوہات سے یوپی اے سرکار ان ویب سائٹوں سے خوفزدہ ہے۔ نیوز چینلوں کو سرکاری کنٹرول میں لانے کی بات تھمی نہیں کہ سوشل نیٹ ورکنگ کا واویلا شروع ہوگیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ دیش کو اطلاعات دینے والی سرکار آخر چاہتی کیا ہے؟ کیا سرکار کی ساکھ صرف میڈیا کے ہی سبب بگڑی ہے؟ کیا ٹوجی گھوٹالہ، کامن ویلتھ گھوٹالہ،لوک پال کے معاملے میں ٹیم انا سے دھوکہ جیسے برننگ اشوز پر کیا سوشل نیٹ ورکنگ کی وجہ سے سرکار کی کھنچائی ہوئی ہے؟ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ کیا سوشل نیٹ ورکنگ پر کنٹرول سے سرکار پاک صاف ہوجائے گی؟ کیا اسے تب جنتا کلین چٹ دے دے گی؟ کپل سبل نے کہا کہ کانگریس کے بڑے نیتاؤں کی تصویریں بھی سائٹ مالکوں کو دکھائی گئی تھیں کیا انہیں ہٹوانے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تھا؟ ویسے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر دیش ایسا دباؤ ڈالتا ہے اور یہ بھی نہیں کہ سوشل سائٹ ان پر غور نہیں کرتیں۔ ایک رپورٹ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ کچھ ملکوں میں گوگل نے اسے بھیجی گئی شکایتوں میں سے 80 سے100 فیصدی تک کو تیزی سے دور کیا ہے اور سائٹ سے میٹر کو ہٹا دیا۔ لیکن بھارت میں یہ 23فیصدی رہا اس لئے کہ بھارت میں ایسی شکایتیں تھیں جسے گوگل قابل اعتراض نہیں مانتا۔ ظاہر ہے کہ زیادہ تر شکایتیں اپنی سرکار کے خلاف کئے گئے تبصروں کو لیکر کی گئیں ہوں گی۔ پچھلے دو سال میں منموہن سرکار کے خلاف کرپشن اور گھوٹالوں کی باڑھ سی آگئی ہے۔ سرکار کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ ان خبروں نے نوجوان چٹکیوں کی شکل میں سوشل میڈیا میں جگہ بنائی ہے۔ بھارت میں فیس بک، گوگل، ٹوئیٹر وغیرہ کے دس کروڑ سے زیادہ ممبر ہیں۔ آپ کے پاس نہ تو ان کی نشاندہی کرنے کے وسائل ہیں اور نہ ہی ایسا کرنا آپ کے مفاد میں ہوگا۔ چین کی حکومت یہ غلطی کافی وقت سے کرتی آرہی ہے۔ بھارت سرکار کو ہرگز ایسا کرنے کی کوششوں سے بچنا چاہئے۔ سوشل سائٹ چاہ کر بھی اپنے یہاں کسی قابل اعتراض مواود کوا س کی اشاعت سے پہلے روک نہیں سکتی۔ نہ ہی انہیں اس کی اشاعت کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ہاں ان سے یہ توقع ضرور ہے کہ وہ اپنے ضمیر سے یا کسی اتفاق رائے یا رہنما اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے میٹر کو خود ہی ہٹا دے۔ سرکار کے اپنے کارناموں پر زیادہ توجہ دینی چاہئے اور ایسی حرکتوں سے باز آنا چاہئے جس سے سوشل سائٹوں پر اس کے خلاف غلط پروپگنڈہ ہو۔ یہ سینسر شپ ہے بیشک کپل سبل جو بھی کہیں اور سینسر شپ دیش کو برداشت نہیں۔ کانگریس پہلے بھی یہ کہہ کر اپنے ہاتھ جلا چکی ہے۔ امید ہے کپل سبل تاریخ سے سبق لیں گے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Facebook, Google+, Twitter, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟