انا کی آندھی ہے ، یہ دوسرے گاندھی ہیں

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 18th August 2011
انل نریندر
منگل 16 اگست کا دن ہمیشہ یادرہے گا۔ یہ کوئی فلم سے کم نہیں تھا۔ پورے دن سسپنس ، ڈرامہ، اموشن سبھی دیکھنے کو ملے۔ سارے دیش کی نظریں انا ہزارے پر لگی ہوئی تھیں ،دیکھیں آج انا کیا کرتے ہیں۔ انا اپنے کہنے پر کھرے اترے، تمام طرح کے دعوؤں کے باوجود انا اپنے موقف پر اٹل رہے اور رہیں گے۔ منگل کی صبح دہلی پولیس کے سینئر افسر قریب ڈھائی سو جوانوں کولیکر میور وہار فیز I میں واقع سپریم انکلیو میں پرشانت بھوشن کے فلیٹ پہنچے۔ قریب آدھے گھنٹے تک بات چیت کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو پولیس نے انا کو اسی فلیٹ میں جس فلیٹ میں رکے تھے وہاں سے حراست میں لے لیا۔ انا کو جیسے ہی انووا کار میں کرائم برانچ کے آدمی لیکر باہر نکلے تو گاڑی کو ہجوم نے گھیر لیا۔ لوگوں نے یوپی لنک روڈ جام کردیا۔ انا ہزارے کو علی پور روڈ پر واقع دہلی پولیس کے آفیسر میس میں لایا گیا۔ بعد میں انا کو امن بھنگ کرنے کے اندیشے میں گرفتار کرنے کا اعلان ہوا۔ انا کے حمایتیوں کے ڈرسے پولیس نے انہیں نامعلوم مقام پر بھیجنے کی تیار کی۔ پولیس انا کو گاڑی میں بٹھا کر لے گئی۔ تقریباً دو گھنٹے تک انا کو لیکر سسپنس بنا رہا۔ دہلی پولیس نے بھی اس بارے میں کچھ کہنے سے انکار کردیا۔ تقریباً 12.15 بجے انا کولیکرپولیس کی ٹیم راجوری گارڈن میں واقع پولیس ڈپٹی کمشنر آفس پہنچی۔ یہاں خصوصی ایگزیکٹو مجسٹریٹ کی عدالت میں انا ہزارے کو پیش کیا گیا۔ انا کے حلف نامہ دینے سے منع کرنے پر انہیں جوڈیشیل حراست میں بھیج دیا گیا۔ دن میں 3.15 بجے انا ہزارے کو لیکر پولیس کی ٹیم تہاڑ جیل کے لئے روانہ ہوئی لیکن ڈپٹی کمشنر آفس کے باہر جمع بھیڑ نے احتجاجی مظاہرے شروع کردئے۔ پتھراؤ میں انا ہزارے کو لے جارہی کار کا شیشہ بھی ٹوٹ گیا۔ تقریباً پونے چار بجے شام انا ہزارے کو لیکر پولیس تہاڑ جیل پہنچی۔ جیل کے حکام نے انا کو جیل نمبر 4 میں رکھے جانے کا فیصلہ لیا۔ ان کے دیگر ساتھیوں اروند کیجریوال ، شانتی بھوشن، کرن بیدی کو بھی گرفتار کر تہاڑ لایاگیا۔
انا کی گرفتاری کی خبر پورے دیش میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ کچھ ماحول ویسا ہی تھا جو ایک زمانے میں جے پی تحریک کے وقت میں بنا تھا۔ جنتا سڑکوں پر اترآئی تھی۔ نعرے لگ رہے تھے ، عورتیں ،بچے، بوڑھے سبھی متحد ہوتے نظر آئے۔ جے پی تحریک اور انا تحریک میں ایک بہت بڑا فرق نظر آیا وہ تھا الیکٹرانک میڈیا کا آنا۔ ٹی وی سے زمین آسمان کا فرق آگیا ہے۔ انا کو پولیس تہاڑ جیل لے گئی یہ خبر بھارت کے کونے کونے میں تو پہنچی ہی بلکہ بیرونی ممالک تک اسی وقت پہنچ گئی۔ دیش کے کئی شہروں میں لوگ سڑکوں پر اتر آئے۔ دھرنے مظاہرے شروع ہوگئے۔ مرکزی سرکار کو شاید یہ امیدنہ رہی ہوگی کہ انا کو ایسی عوامی حمایت ملے گی۔ وناش کالے وپرت بدھی یہ کہاوت منموہن سنگھ سرکار پر انا ہزارے کو تہاڑ لے جانے سے صحیح ثابت ہوتی ہے۔ انا کو اسی تہاڑ جیل میں لے جایا گیا جہاں اے راجہ، کنی موجھی، سریش کلماڑی جیسے بدعنوان لوگ بند ہیں۔ جو آدمی کرپشن کے خلاف گاندھی گری سے احتجاج کررہا ہے اس کو اسی جیل میں لے جایا جائے جہاں بدعنوانی میں ملوث لوگ رکھے گئے ہیں، کتنا تضاد ہے۔ تہاڑ میں قیدیوں تک انا کی حمایت میں نعرے لگنے لگے۔ ذرائع کی مانیں تو جب انا کو شام میں تہاڑ جیل لایاگیا تو یہاں کے سیکورٹی ملازمین تک کو انا کودیکھنے کی خواہش تھی۔ کچھ قیدیو ں کا کہنا تھا کہ ہمیں بند کریں تو بات سمجھ میںآتی ہے مگرانا ہزارے جیسے شخص کو گرفتار کرنا کہاں تک صحیح ہے؟ یہ تو ایک عام آدمی کی پریشانی ہے وہ دیش کو کھوکھلا کرنے والوں کو سزا دلوانے کے لئے لوکپال بل لانے کیلئے گاندھی گری کو ساتھ لیکر انشن کررہے ہیں۔ ان کا اس میں کیا قصور ہے جو ان کو بند یا سزا دی جارہی ہے؟ ایسے لوگوں کو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ذرائع تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ کچھ قیدیوں نے باہر نکل کر ان کے مشن میں حصہ بننے کی بھی بات کی اور کچھ نے ایک دن کا انشن کرنے کی بات کی۔ جب انا ہزارے جیل میں بند تھے تو ان کے ہزاروں حمایتی جیل کے باہر مظاہرہ کررہے تھے اور نعرے بازی ہورہی تھی۔ اسی وقت انڈیا گیٹ پر کینڈل مارچ ہورہا تھا۔ چھترسال اسٹیڈیم میں جہاں مظاہرین کو رکھا گیا تھا وہاں جم کر نعرے لگ رہے تھے۔ پورے دیش سے جنتا کے سڑکوں پر آنے کی رپورٹیں ٹی وی پر چل رہی تھیں۔ سرکار انا کی حمایت کو دیکھ کر بوکھلا گئی اور دہلی پولیس نے وہ کام کیا جو اس نے شاید پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس نے تہاڑ میں انا کو بغیر شرط چھوڑنے کا حکم بھیج دیا۔ اس پر دہلی پولیس نے تھوڑی ہوشیاری سے کام لیا ۔ اس نے 4 جون کو جس طرح بابا رام دیو کے حمایتیوں کو رام لیلا میدان سے طاقت کے زور پر باہر نکالنے کے لئے لاٹھیوں کا سہارا لیا تھا ، اس بار وہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اور پولیس نے سوجھ بوجھ سے سارے معاملے کو ہینڈل کیا۔
انا کی تحریک اب پورا رنگ دکھاچکی ہے۔ انا اشونہیں جیسے بابا رام دیو کا اشو نہیں بلکہ اصل اشو بدعنوانی اور مہنگائی ہے۔ جنتا کا خیال ہے کہ کرپشن کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے اور یہ سرکار نہ تو کرپشن کو روکنے میں نہ مہنگائی کم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ میں سندر نگر میں رہتا ہوں منگلوار کی شام کو جب میں گھر لوٹا تو ہماری سندر نگر ایسوسی ایشن سے بھیجا گیا ایک سرکولر پڑا ملا تھا۔ یہ سرکولر سارے سندر نگر کے باشندوں کو بھیجا گیا۔ اس میں لکھا تھا کہ آج شام 7 سے8 بجے تک بتی گل رکھیں اور بدعنوانی سے پاک تحریک کی حمایت کریں۔ جب جنتا میں اس طرح کا جذبہ ہو تو آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کے انا کی تحریک کتنی عوامی بن چکی ہے۔ انا ٹھیک کہتے ہیں کہ عوامی لوکپال بل سے بدعنوانی مٹ نہیں سکتی لیکن کم ضرور ہوسکتی ہے۔ 65 فیصد تک بدعنوانی کم ہوجائے تو انا کی مہم کامیاب مانی جائے گی۔
فی الحال انا تہاڑ میں ہی اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس آرٹیکل کے لکھنے تک جو خبریں آرہی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ انا اپنی شرطوں کو منواکر ہی تہاڑ جیل سے جے پی پارک یا رام لیلا میدان انشن کیلئے جا سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ منگل کی رات جیل انتظامیہ نے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن انہوں نے اپنی شرطیں پوری ہونے تک جیل سے باہر آنے سے منع کردیا جس وجہ سے انہیں تہاڑ جیل کے انتظامی بلاک میں ہی رات گذارنی پڑی۔ تہاڑ جیل کے ترجمان سنیل گپتا نے بتایا کہ انا ہزارے کی شرطیں اعلی افسروں تک پہنچا دی گئیں تھیں۔ وہیں جنتا کی نبض پہچاننے میں منموہن سرکار نا کام رہی ہے۔ یہ حکومت شروع سے ہی انا تحریک کو ملنے والی عوامی حمایت کو صحیح طریقے سے جانچنے میں ناکام رہی ہے۔ اسی وجہ سے جہاں ایک طرف حکومت نے اپنے کھوکھلے پن اور بوکھلاہٹ کی تصویر پیش کی ہے وہیں وناش کالے وپرت بدھی بھی گنوا بیٹھی ہے۔ گاندھی وادی انا ہزارے کا ستیہ گرہ تیور اور ان کی حمایت میں منگلوار کو دیش بھر میں عوامی سیلاب سرکار کے لئے بھاری ثابت ہوا۔ لوکپال کے اشو پر انا کو انشن سے روکنے کی کوشش میں سرکار کو منہ کی کھانی پڑی اس لئے انا کوصبح گرفتار کرنے والی دہلی پولیس رات تک انہیں تہاڑ جیل سے باہر لانے کیلئے منتیں کرتی رہی۔ پولیس نے ان کے خلاف سبھی معاملے واپس لے لئے لیکن انا جیل میں رہنے پر اڑے رہے۔ انہوں نے باہر آنے کیلئے جے پی پارک میں انشن کرنے کی تحریری اجازت دینے کی شرط رکھی۔ گرفتاری کے بعد انا نے کہا آزادی کی دوسری تحریک شروع ہوگئی ہے اور مجھے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ لیکن میری گرفتاری سے تحریک قطعی رکنے والی نہیں۔ بدعنوان لوگوں کا اصلی چہرہ سامنے آگیا ہے۔ یہ تبدیلی کی لڑائی ہے جب تک تبدیلی نہیں آئے گی تب تک عوامی حکومت حاصل نہیں ہوگی۔ وقت آگیا ہے کہ سبھی لوگ گرفتاری دیں اور دیش میں کوئی بھی جیل خالی نہ بچے۔ سبھی حمایتی 8 دنوں تک اپنے کام سے چھٹی لیں اور تحریک میں کود پڑیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد میں شامل ہونے سے یہ تحریک مضبوط ہوگی۔
Anil Ambani, Anna Hazare, Arvind Kejriwal, Daily Pratap, delhi Police, Lokpal Bill, Tihar Jail, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟