راجیہ سبھا میں جسٹس سین کیخلاف مقدمہ

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 19th August 2011
انل نریندر
راجیہ سبھا میں بدھ کو ایک تاریخی واقعہ کا آغاز ہوا۔ کولکتہ ہائی کورٹ کے ایک جج سمتر سین کے خلاف تحریک ملامت راجیہ سبھا میں شروع ہوئی ۔ یہ ایوان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہورہا ہے۔ ویسے جسٹس سین دیش کی عدلیہ تاریخ میں ایسے دوسرے جج بن گئے ہیں جن کے خلاف پارلیمنٹ کے کسی ایوان میں تحریک ملامت کی کارروائی کی جارہی ہے۔ راجیہ سبھا پہلی بار ایک عدالت میں تبدیل ہوئی ہے۔ ایوان کی چیئر کے سامنے والے دروازے کے پاس بنے کٹہرے میں جسٹس سین نے اپنا موقف رکھا۔ جسٹس سمتر سین پر لگے الزامات کی جانچ کے لئے کمیٹی راجیہ سبھا کے چیئرمین حامد انصاری نے بنائی تھی۔ کمیٹی نے 33 سالہ جج کو بدعنوانی کے الزامات میں قصوروار پایا ہے۔ آئین کے تحت سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج پر پارلیمنٹ میں تحریک ملامت پیش کر اس کو عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ایسی تجویز دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے پاس ہونا ضروری ہے۔ بدگمانی اور الزامات کو ثابت کرنے والے ریزولیوشن پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہیں پاس ہونا ضروری ہیں۔ پارلیمنٹ کی تاریخ میں یہ دوسرا موقعہ ہے جب کسی جج کو ہٹانے کے لئے کارروائی کی جارہی ہے۔ 1993 میں جسٹس راما سوامی کو ہٹانے کیلئے اس طرح کی کارروائی شروع ہوئی تھی لیکن لوک سبھا میں اس سے متعلق تحریک ملامت ریزولیوشن پاس نہیں ہوپایا تھا۔ تب علاقائی بنیاد پر ممبران پارلیمنٹ میں اختلافات ہونے کی وجہ سے فائدہ بدعنوانی کے ملزم جج کو مل گیا تھا۔ تب کانگریس کے یہ ہی شری کپل سبل، جسٹس راما سوامی کی جانب سے پیروی کرنے لوک سبھا میں پیش ہوئے تھے۔ نرسمہاراؤ والے کانگریس حکومت نے تحریک ملامت کی تجویز کی مخالفت کرکے سب کو چونکادیا تھا۔ پہلی تحریک ملامت خارج ہونے کے بعد بڑی عدالتوں میں ججوں کے خلاف بدعنوانی کی شکایتیں بڑھ گئیں تھیں۔ راجیہ سبھا میں جو ریزولوشن جسٹس سین کے خلاف پیش کیا گیا ہے اس کا مسودہ کہتا ہے کہ یہ ایوان کولکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس سمتر سین کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے ثبوتوں اور جانچ کے متعلق جانچ کمیٹی کی اس رپورٹ پر غور کرتا ہے جو 10 نومبر2010 کو ایوان کی ٹیبل پر پیش کی گئی تھی۔ چیئر مین حامد انصاری نے 15 فروری کو جسٹس سین کو ہٹائے جانے کے متعلق ریزولوشن کو قبول کرلیا تھا۔ ادھر سکم ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پی ڈی دناکرن کے خلاف لگے بدعنوانی کے الزامات کی جانچ کے لئے بھی راجیہ سبھا کے چیئرمین نے ایک عدلیہ کمیٹی بنائی ہے۔ حالانکہ جسٹس دنا کرن نے پچھلی 20 جولائی کو خود ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اگر جسٹس سین بھی استعفیٰ دے دیتے تو ان کے خلاف بھی کارروائی نہ ہوتی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جو رپورٹ تین نفری انکوائری کمیٹی نے پیش کی تھی اس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس سمتر سین کو ہندوستان کے آئین کی دفعہ217(1) کے (بی) سیکشن کے ساتھ شق 124 (بی) کے تحت بدعنوانی کا قصوروار پایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج بی سدرشن ریڈی کی سربراہی والی انکوائری کمیٹی نے کہا ہے کہ کولکتہ ہائی کورٹ کے ریسیور کی شکل میں جسٹس سین کے ذریعے بڑی رقم بیجا ذرائع سے اکٹھے کرنے اور اس سلسلے میں غلط حقائق پیش کرنے کے الزام مناسب طور سے درست ثابت ہوئے ہیں۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Justice Sen, Parliament, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟