اگست انقلاب: حکومت اور انا میں آر پار کی لڑائی

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 17th August 2011
انل نریندر
آزادی کی سالگرہ پر ہی ایک بڑی لڑائی کا اعلان ہوگیا ہے۔ آزادی کی 65 ویں سالگرہ پر ایک طرف وزیر اعظم منموہن سنگھ اور ان کی سرکار ہے تو دوسری طرف انا ہزارے اور ان کی سول سوسائٹی ہے۔ ایک طرف سب سے طاقتور حکومت ہے جو ہر حال میں انا کی تحریک کو دبانا چاہتی ہے تو دوسری طرف عام جنتا کی حمایت پا رہے بدعنوانی ختم کرنے کی لڑائی لڑنے پر آمادہ انا ہزارے اپنے وعدے کے مطابق انا نے منگلوار کی صبح اپنی بھوک ہڑتال شروع کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں میور وہار میں ہی صبح حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ انا کے خاص حمایتی شانتی بھوشن، اروند کیجریوال، کرن بیدی کو بھی حراست میں لیا گیا۔ اس سے پہلے 15 اگست کا دن گہما گہمی کا رہا۔ صبح میں یوم آزادی پر وزیراعظم منموہن سنگھ نے قوم سے لال قلع کی صفیل سے دیش کو خطاب کرتے ہوئے انا کو براہ راست چنوتی دے ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ انشن سے بدعنوانی ختم نہیں ہوگی اور بدعنوانی کے خلاف لوکپال لانے کی لڑائی لال قلع سے اور زیادہ تیز ہوگئی۔ وزیراعظم نے اپنی حکومت کے دامن پرلگے داغ کو تسلیم کرتے ہوئے اس بیماری سے لڑنے میں اپنے عزم کی صفائی پیش کی۔ لیکن بدعنوانی مٹانے کیلئے انشن کو غلط قراردیا۔ کامن ویلتھ کھیلوں سے لیکر ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ میں گڑبڑیوں کے بے نقاب ہونے کے بعد پہلی مرتبہ لال قلع پر جھنڈا لہرا رہے وزیراعظم نے سرکاری سامان کی خرید میں گھوٹالوں ،ٹھیکوں میں ہوئی بے ایمانی اوراپنے ماتحت افسروں کے بیجا استعمال سمیت مرکزی حکومت پر لگے بدعنوانی کے دھبوں کو مانا ہے۔ منموہن سنگھ نے کہا کہ اعلی عہدوں پر بدعنوانی کو روکنے کے لئے مضبوط لوکپال بل پارلیمنٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔ اس کی کچھ نکات پر اختلافات ہیں جو لوگ اس سے مطمئن نہیں ہیں وہ اپنا نظریہ پارلیمنٹ کو بتا سکتے ہیں لیکن میرا خیال ہے اسکے لئے بھوک ہڑتال کا سہارا نہیں لیا جانا چاہئے۔
دوسری طرف انا ہزارے نے دہلی کے کانسٹیٹیوشن کلب میں منعقدہ پریس کانفرنس کر وزیر اعظم، کپل سبل وغیرہ کے سوالوں کا کھل کر جواب دیا۔ انا نے کسی قیمت پر نہ جھکنے کے اپنے ارادے تو صاف کردئے تھے۔ وزیر اعظم کی جانب سے لال قلع کی صفیل سے خود کو دی گئی نصیحت کا بھی جواب دے دیا۔ اسی طرح انہوں نے ٹیلی کمیونی کیشن وزیر کپل سبل کی جانب سے ’جن لوکپال‘ کے خلاف دی گئی دلیلوں کو بھی چھلنی کردیا۔ وزیراعظم کی دلیل کو پوری طرح مسترد کرتے ہوئے انا نے کہا ’’میں نہ تو پارلیمنٹ کے خلاف ہوں اور نہ ہی پارلیمانی عمل کے لیکن وزیر اعظم جی آپ پارلیمنٹ کے سامنے صحیح بل تو رکھئے‘‘۔ وزیر اعظم پر سیدھا حملہ کرتے ہوئے کہا ’میں کئی بار کہتا تھا کہ وزیر اعظم اچھے آدمی ہیں، لیکن یہ تو کپل سبل کی ہی زبان بول رہے ہیں‘۔ اپنے ارادوں کو ظاہرکرتے ہوئے انا نے کہا ’’میں منگلوار کی صبح 10 بجے جے پی پارک پہنچ جاؤں گا۔ اگر پولیس گرفتار کرتی ہے تو جیل میں ہی انشن چھیڑ دوں گا۔ اگر چھوڑ دیتی ہے تو پھر جے پی پارک کوچ کرجاؤں گا۔اب یہ تحریک رکنے والی نہیں ہے۔‘‘ مرکزی وزیر کپل سبل کی دلیلوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ میں سو فیصدی تو گارنٹی نہیں دے سکتا لیکن جن لوکپال کو لاگو کرنے سے دیش میں 60-65 فیصدی بدعنوانی دور ہوجائے گی۔ اس بات کی میں تحریری گارنٹی دینے کوتیار ہوں۔ ایسا اگر نہیں ہوا تو میں زندگی بھر کے لئے کپل سبل کے یہاں پانی بھرنے کو تیار ہوں۔اس سے ایک دن پہلے کپل سبل نے کہا تھا کہ انا ہزارے تحریری گارنٹی دیں۔ جن لوکپال بل لانے سے دیش میں بدعنوانی دور ہوجائے گی تو سرکار ان کا مسودہ ماننے کو تیار ہے۔ انا نے یہ بھی صاف کیا کہ ان کا مقصد سرکار گرانا نہیں ہے کیونکہ دوسرے موجودہ متبادل ہیں لیکن وہ بھی کم کرپٹ نہیں ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی صاف کیا کہ اگر سرکار جنتا کے جذبات کو نہیں سمجھ سکتی تو گر بھی جائے تو غم نہیں ہے۔
انا کے ساتھ عوامی حمایتی ہے اس کی ہمیں ایک مثال پیر کی صبح راج گھاٹ پر دیکھنے کو ملی۔ بغیر اطلاع جب انا ہزارے راج گھاٹ پہنچے تو ان کے ساتھ قریب 100 لوگ ہوں گے لیکن آہستہ آہستہ بھاری بارش کے باوجود بھیڑ جمع ہونا شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔جسے جہاں جگہ ملی وہیں کھڑا ہوکرانا کی حمایت میں نعرے لگانے لگے۔ ’انا ہزارے نہیں آندھی ہیں، آج کے گاندھی ہیں‘ جیسے نعرے کھلے عام راج گھاٹ پر گونج رہے تھے۔ جس طرح راج گھاٹ پر بھیڑ جمع ہوئی اس سے صاف ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت اناپر چاہے جتنے الزام لگائے جنتا کو وہ نہیں جھکا سکتے۔ایک 80 سالہ شخص پرویز جو لاٹھی کے سہارے چل رہے تھے فرماتے ہیں ہم تو اب جانے والے ہیں سماج اور دیش کو صحیح مقام تبھی مل سکتا ہے جب سرکاری مشینری کرپشن سے پاک ہوگی۔ ان کے ساتھ ان کا پوتا بھی تھا جس کی طرف ان کا اشارہ تھا۔ اس کا مستقبل ۔ انا کی صاف ستھری ساکھ سے لوگوں کوان سے لگاؤ ہے اس بات سے بڑی تقویت ملتی ہے کہ لوگ راج گھاٹ پر انا کے پاس پہنچنے کے لئے اسطرح بے چین تھے کہ فرید آباد اور غازی آباد سے بھی لوگ چل پڑے۔ جب انا راج گھاٹ سے کانسٹیٹیوشن کلب گئے توسینکڑوں لوگ پیدل ان کے پیچھے پیچھے ہو لئے۔
آگے کیا ہوگا؟ انا نے سارے دیش کی توجہ بدعنوانی کی طرف راغب کرا دی ہے۔ حکومت انا کو ناکام کرنے میں تلی ہوئی ہے لیکن اس سے انا کی عوامی حمایت بڑھتی جارہی ہے۔ سرکار اور زیادہ بدنام ہورہی ہے۔ جس ڈھنگ سے حکومت اور اسکے وزیر انا پر کیچڑ اچھال رہے ہیں وہ عام زندگی میں سرگرم اور ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ پہلے کانگریس ترجمان اور پھر مرکزی حکومت کے وزرا نے انا ہزارے کو کرپٹ اور کھلنائک ثابت کرنے کے لئے جس طرح سے گڑھے مردے اکھاڑنے کا سہارا لیا اس سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی اقتدار اختلافی نظریہ رکھنے والوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ انا کو انشن کرنے کی اجازت نہ دینا اور پھر انہیں گرفتار کرنا ، نہ صرف دیش کے جمہوری نظام کے خلاف قدم ہے ساتھ ساتھ اس حکومت کی بوکھلاہٹ کو بھی ثابت کرتا ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ سرکارانا کو ناکام کرنے کے لئے ہر طرح کا ہتھکنڈہ تو اپنا رہی ہے لیکن اس مرض کا علاج کرنے کو تیار نہیں جو اس دیش کی سب سے بڑی بیماری بن گیا ہے۔ بدعنوانی کا کینسر بری طرح پھیل رہا ہے اور بدعنوانی پر لگام لگانے کے لئے ٹھوس قدم اٹھانے سے بھاگ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرکے منموہن سنگھ سرکار جنتا کو کیا پیغام دینا چاہ رہی ہے کہ وہ بدعنوانی کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی؟ پارلیمنٹ کے اندر اپنا نمبر صحیح رکھ کر جنتا کے ارمانوں کو کچل دے گی؟ انا کی تحریک کو بھارت کی مختلف سیاسی پارٹیاں ظاہری طور پر حمایت کررہی ہیں لیکن اندر خانے کوئی بھی پارٹی ان کے جن لوکپال بل کی کھلی حمایت کرنے کو تیار نہیں۔ انا نے جوآندھی کی شروعات کی ہے اس سے نہیں لگتا کہ یہ اب رکنے والی ہے۔ حکومت نے ایسی پوزیشن اختیار کرلی ہے کہ اب اس کا پیچھے ہٹنا مشکل ہے اس لئے آزادی کی 65 ویں سالگرہ میں ایک نئی لڑائی و جدوجہد کا آغاز ہوچکا ہے۔ آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا کہ یہ آندھی کیا رخ ، کیا رنگ اپناتی ہے۔ انا کی تحریک چلے نہ چلے کرپشن سے جنتا عاجز آچکی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس پر قابو پانے کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے اور کچلنے سے آپ تحریک کو روک سکتے ہو لیکن دبا نہیں سکتے۔
Anil Narendra, Anna Hazare, Arvind Kejriwal, Civil Society, Daily Pratap, Kiran Bedi, Lokpal Bill, Shanti Bhushan, Tihar Jail, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟