منموہن سرکار کی گمراہی کا نتیجہ ہے یہ دھماکو صورتحال


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 19th August 2011
انل نریندر
تہاڑجیل کے باہرکا منظر قاہرہ کے تحریر چوک جیسا بنا ہوا ہے لیکن اندر ہیں انا ہزارے اور جیل کے باہر جنتا۔ اگست کرانتی چوک بن گیا ہے دہلی کا جیل روڈ۔ہزاروں کی تعداد میں عوام جیل کے باہر بارہ گھنٹوں سے ڈٹی ہوئی ہے۔بدھ اور جمعرات کوبھی یہ ہی نظارہ دیکھنے کو ملا۔ جس طریقے سے حکومت نے انا ہزارے کی تحریک کو ہینڈل کیا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایڈمنسٹریشن کے لحاظ سے جتنے طریقے کی ناکامی ہو سکتی ہے ہم ان سبھی کو گنا سکتے ہیں۔ پچھلے دو تین دنوں سے جو کچھ ہورہا ہے اس سے لگتا ہے کہ یوپی اے سرکار کا خفیہ تجزیہ فیل ہوگیا ہے بلکہ اس کی قوت ارادی میں بھی کمی نظرآتی ہے اور مکمل کنفیوژن ہے۔ قانون کا مذاق بنا ہوا ہے۔ پولیس کی فضیحت کے ساتھ ہی اس کا حوصلہ پست ہونے جیسے حالات ہوگئے ہیں۔ یعنی جسے کہیں تو مکمل طور پر غلط طریقے سے معاملے سے نمٹنا۔ سرکار کی نیت بھی صاف نہیں تھی، وہ کبھی کچھ تو کبھی کچھ جیسے حالات میں دکھائی پڑی۔ یہ تجزیہ ٹھیک سے نہیں ہوا کہ انا کی گرفتاری کے نتیجے میں دہلی اور دیش میں کیا بونڈر کھڑا ہوسکتا ہے؟ یہ حالت تو تب ہے جب حکومت گذشتہ اپریل سے جنتر منتر پر انا کے انشن کو ملی عوامی حمایت کو دیکھ چکی ہے؟ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس طرح کے فیصلے یہ منموہن سنگھ سرکار لے رہی ہے؟ بابا رام دیو سے چار چار وزیر ہوائی اڈے ملنے جاتے ہیں پھر پولیس سے ایکشن کراتے ہیں، انا ہزارے سے بات چیت کرتے ہیں پھر بدعنوانی کے الزام لگا کر ان پر دھنواں دھار حملے کرڈالتے ہیں۔ عوام میں غصہ بھر ڈالتے ہیں، انشن پرروک لگواتے ہیں، پھر گرفتاری ہوتی ہے۔ تہاڑ بھیج دیتے ہیں، پھر اسی شام چھوڑنے کا فیصلہ کرادیتے ہیں، اور انا کو باہر آنے کے لئے منا پاتے ہیں؟ یہ کیا ہورہا ہے؟ پولیس اور قانون کا اس طرح تماشہ کم سے کم دہلی میں تو شاید کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ہو؟حملہ کرو اور پھر اس کے بعد لیپا پوتی؟ جیسا کسی نے کہا ہے کہ ہم ایک مہذب ریاست ہیں۔ ویلفیئر اسٹیٹ میں عوامی جذبات سے بڑا کچھ بھی نہیں ہے لیکن اس بارے میں پہلے سے صحیح تجزیہ کرنا اس حساب سے تیاری کیوں نہیں ہوئی۔قانون اور پولیس اس حالت سے بچ پاتے؟ حکومت کے غلط طریقے سے نمٹنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج جنتا سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ قاہرہ کے تحریر چوک پر بھی اسی طرح جنتا آ گئی تھی۔ دراصل یہ کہنا مناسب نہ ہوگا کہ انا ہزارے کی تحریک ہندوستانی جمہوریت کی تاریخ میں ایک نئی صبح لیکر آئی ہے۔ رالے گن سدھی سے اٹھا ایک شخص جب لوک نائک جے پرکاش نارائن کی طرح خاص طور سے بدعنوانی کے خلاف احتجاج میں دیش کی آواز بن جاتا ہے اور جس طرح سے پورے دیش میں لوگ سڑکوں پر اتر آتے ہیں، یہ چونکانے والا منظر بھی ہے۔ کبھی کبھی یہ ناراضگی دیش کی تشریح اور جغرافیہ دونوں کو بدل دیتی ہے۔ پورے دیش میں پچھلے برسوں میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں ان کے مرکز میں نوجوان طاقت اور اس کا نظریہ شامل رہا ہے۔ یہ نظریہ اسوقت اور بھی تیزی پکڑ لیتا ہے جب اس کے ساتھ سیاسی اور سماجی اشو جڑ جاتے ہیں۔ آج دیش سب سے زیادہ بدعنوانی ، لوٹ اور مہنگائی سے پریشان ہے۔ پچھلے 64 برسوں سے جس طرح کے سماجی نظام کی گندگی نے ہندوستانی سماج اور جمہوریت کو آلودہ کیا ہے اس سے عام آدمی کا بھروسہ حکومت سے ، جمہوری نظام سے بھی اٹھنے لگا ہے۔ اور یہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ حکومت نے کبھی بھی جنتا کی پرواہ نہیں کی، خاص کر اس حکومت نے۔ مہنگائی ، بے روزگاری، بدعنوانی، لوٹ مار ان سے جنتا تنگ آچکی ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جس ہندوستانی جمہوریت میں سب کو یکساں حقوق کی گارنٹی ہندوستان کا آئین دیتا ہے اس میں سب سے دکھی اور مایوسی میں دبے آخری آدمی کو اس نظام میں لگنے لگا ہے کہ شاید اب اس سسٹم میں اس کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہ گئی ہے۔ انا کی تحریک کے ساتھ جس طرح کا سلوک منموہن سرکار کررہی تھی اس سے صاف ہے کہ کانگریس ایک بار پھر37 سال پرانی روایت کو دوہرا رہی ہے۔ تب جے پرکاش نارائن کی تحریک کو بھی کچھ اسی انداز میں دبانے کی کوشش ہوئی تھی لیکن جب کانگریس میں موہن دھاریہ، چندر شیکھر، رام دھن ، کرشن کانت جیسے نوجوان سماج وادی تھے ان میں سے ایک چندرشیکھر نے ہمت دکھا کر اندرا گاندھی کو سمجھانے کی بھی کوشش کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا جے پی سنت ہیں ، سنت سے مت ٹکراؤ۔ سنت سے جو اقتدار ٹکراتا ہے وہ چور چورہ وجاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جے پرکاش نارائن سے ٹکرانا کانگریس اور اندرا گاندھی کے لئے کتنا مہنگا ثابت ہوا۔ اور1977 میں چناؤ میں چاروں خانے چت ہوگئی تھی۔ آج کانگریس پارٹی میں کوئی ایسا دمدار لیڈر نظر نہیں آتا جو منموہن سرکار کو بتا سکے کہ جس راستے پر وہ چل رہی ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ ہم تو ڈوبے ہیں، تمہیں بھی ساتھ لے ڈوبیں گے؟ منموہن سرکار کو بہرحال اس بات کا شکریہ ضرور ادا کرنا پڑے گا کہ آج اس کی حماقت کی وجہ سے پورا دیش ایک ہوگیا ہے اور قومی پرچم کی عزت کی خاطر جنتا سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ ہم نے اسی کالم میں اس سرکار کو بار بار آگاہ کیا کہ حالات اتنے نہ بگڑنے دو کے بازی ہاتھ سے ہی نکل جائے۔
Anil Narendra, Anna Hazare, Congress, Corruption, Daily Pratap, Lokpal Bill, Manmohan Singh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟