گورکھا مسئلے کا حل ایک نئی سمت فراہم کر سکتا ہے


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 22th July 2011
انل نریندر
مغربی بنگال حکومت، مرکزی حکومت اور گورکھا جن مکتی مورچہ کے درمیان ہوا سمجھوتہ دارجلنگ علاقے میں بحالی امن کا ایک تاریخی قدم ہے۔ لیفٹ فرنٹ نے اس علاقے سے کبھی انصاف نہیں کیا اور ہمیشہ اسے کچلنے کی ہی کوشش کی لیکن ممتا بنرجی نے اقتدار سنبھالتے ہی پہاڑی خطے کے اس پیچیدہ مسئلے کو سلجھا دیا ہے۔ یقینی طور سے یہ ان کا لائق تحسین کارنامہ ہے۔ وزیر اعلی ممتا بنرجی نے مشکل سیاسی چیلنج کا فوری طور پرحل نکالنے میں جو کامیابی حاصل کرکے اپنی سیاسی قابلیت کا ایک ثبوت دیا ہے۔ گورکھا لوگوں کے لئے الگ ریاست کی مانگ تین دہائیوں سے مغربی بنگال کی سیاست میں اتھل پتھل مچاتی رہی ہے لیکن الگ ریاست کے لئے مغربی بنگال کا بٹوارہ ایسا حساس مسئلہ تھا جسے کسی میں چھونے کی ہمت نہیں تھی۔ 23 سال پہلے ایسا ہی ایک سمجھوتہ اس وقت کے گورکھا مکتی مورچہ کے ساتھ ہوا تھا جس میں دارجلنگ گورکھا پہاڑی کونسل بنائی گئی تھی اور سبھاش گھیشنگ کو اس کا لیڈر بنایا گیا تھا۔ حالانکہ یہ بھی ایک مختار کونسل تھی اور اس میں دارجلنگ ،کلنگ پونگ اور کرسیانگ کے علاقے شامل کئے گئے تھے لیکن اس کے اختیارات محدود تھے۔ لیفٹ فرنٹ نے اس 42 نفری کونسل میں ایک تہائی ممبروں کو نامزد کرنے کا حق اپنے پاس رکھ لیا تھا جسے لیکر کھینچ تان رہتی تھی۔ ممتا بنرجی نے نئے سسٹم کو گورکھا لینڈ علاقائی انتظامیہ کا نام دیکر گورکھالوگوں کے جذبات کو کافی حد تک مطمئن کیا ہے۔ اس وقت عارضی طور پر اس میں وہی علاقے رکھے گئے ہیں جو سبھاش گھیشنگ کی پہلی کونسل میں تھے۔ تازہ سہ فریقی سمجھوتے کے بعد کونسل کی بہ نسبت جی ٹی اے کے پاس زیادہ اختیار ہوں گے۔ پریشد کے ممبران کی تعداد 50 کرنے کی سہولت رکھی گئی ہے اور نامزد کئے جانے والے ممبروں کی تعداد گھٹا کر پانچ کردی گئی ہے۔مختاریت کی کنجی سے کسی علاقائی یا سالمیت کے معاملے کے حل کی یہ دیش میں پہلی مثال نہیں ہے۔ اس میں بوڈولینڈ علاقائی کونسل کو اس سے زیادہ مختاری حاصل ہے۔
یہ بات صاف ہے کہ تین قومیں یعنی کھاسی، جیوتیا اور گورا کونسل کے بارے میں بھی یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ان بلدیاتی اداروں کو انتظامی کاموں کے علاوہ کچھ حد تک عدلیہ اختیار بھی حاصل ہیں لیکن ممتا کے فارمولے میں بھی ایک پیچ پھنس سکتا ہے۔ بیشک ایک کمیٹی ضرور بنائی گئی ہے جو تراہی اور سلی گوڑی کے گورکھا اکثریتی حصوں کو نئے سسٹم کا حصہ بنانے کی مانگ کرے گی۔ لیکن یہ پیچ یہیں پھنس سکتا ہے۔ ان علاقوں کے بنگالی، قبائلی اور دیگر گورکھا فرقے کے لوگ اس سسٹم کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جہاں نئے سسٹم کو لیکر گورکھا فرقہ کے لوگ آتش بازیاں چھوڑ رہے تھے اسی وقت سلی گوری اور تراہی علاقوں کے حصوں میں ہڑتال اور بند کیا جارہا تھا۔ چناؤ میں منہ کی کھانے کے بعد لیفٹ فرنٹ سیاسی روٹیاں سینکنے کے فراق میں ہیں اور اسے بنگال کا بٹوارہ بتا رہی ہیں۔ حالانکہ ممتا بنرجی نے گورکھا لینڈ انتظامیہ کے اعلان کے وقت صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ ریاست کی تقسیم کسی بھی حالت میں نہیں کی جائے گی۔ گورکھا علاقائی انتظامیہ ایسی درمیانی راہ نکالنے کا تجربہ ہے جسے الگ ریاست کی مانگ اٹھا رہے تلنگانہ، ودربھ جیسی تحریکوں کا حل نکل سکتا ہے۔ ویسے بھی دیکھا جائے الگ ریاست بنانے سے اور ریاستوں کا بٹوارہ کرنے سے تو یہ راستہ کہیں بہتر ہے۔
Tags: Anil Narendra, Daily Pratap, Vir Arjun, Mamta Banerjee, P. Chidambaram, West Bengal, Gorkhaland,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟