اس ملک میں نوکرشاہوں ،صحافیوں اور دلالوں کا اصل راج ہے


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 20th July 2011
انل نریندر
ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے نے ایک بات تو صاف کردی ہے کہ اس دیش کو عوام کے ذریعے چنے گئے نمائندے عرف ممبر پارلیمنٹ ، وزرا وغیرہ نہیں چلا رہے بلکہ صنعت کار، افسر شاہ اور دلال چلا رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نیراراڈیہ جیسے چالاک لوگ اتنے طاقتور نہ ہوتے جو اپنی پسند کا وزیر بھی بنوا لیتے ہیں اور اسے چنندہ وزارت بھی دلا دیتے ہیں۔نیرا راڈیہ آج مشہور ہستی ہیں، کون ہیں یہ نیرا راڈیہ؟ 1995 ء میں پہلی مرتبہ نیرا راڈیہ ہندوستان آئیں اور اس نے پہلی ملازمت سہارا گروپ میں بطور لائزن افسر کے کی تھی۔ 2001 میں نیرا نے ویشنوی کمیونی کیشن نامی کمپنی شروع کی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹاٹا اور امبانی گروپ کا سارا لائزن کا کام سنبھالنے لگی۔ اچانک اپنی مشتبہ سرگرمیوں کے سبب نیرا انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی نظروں میں آ گئی۔ انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ اس بات کی جانچ کررہا تھا کہ اچانک 10 سالوں میں نوکری کرنے والی نیرا راڈیہ 300 کروڑ روپے کی املاک کی مالک کیسے بن گئی؟ اسی جانچ میں ای ڈی نے نیرا راڈیہ کے فون ٹیپ کرنا شروع کردئے۔ محکمہ انکم ٹیکس نے تقریباً104 ٹیپ اپنی ویب سائٹ پر لگائے ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے سیاستدانوں، صنعتکاروں ،افسر شاہوں ، صحافیوں کی ملی بھگت سے یہ سرکار چل رہی ہے۔ اکیلے ٹاٹا گروپ اور مکیش امبانی نیرا راڈیہ کو سال کا 30-30 کروڑ روپے بطور فیس دیتے ہیں۔آخر اتنے پیسے صنعت کار (وہ بھی ٹاٹا اور امبانی جیسے) دیتے ہیں تو کچھ تو نیرا راڈیہ انہیں عوض میں دیتی ہوگی ایسا نہیں صنعتکار ایک بھی پیسہ خرچ کرتے ؟ راڈیہ کی سرگرمیوں کی فہرست لمبی ہے۔2009 میں یوپی اے سرکارکے اقتدار میں واپسی کے بعد اے راجہ کو پھر سے ٹیلی کمیونی کیشن وزیر بنوانے کے لئے نیرا راڈیہ نے کنی موجھی سمیت کئی با اثر لوگوں کے ساتھ لابنگ کی تھی۔ راڈیہ نے سی بی آئی کو دئے گئے بیان میں تسلیم کیا ہے کہ اے راجہ کو وزیر بنوانے کے لئے سبھی ممکنہ رابط پر غور کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ راجہ کو انل امبانی سے دوری بنا کر رکھنے کی صلاح دی گئی تھی۔ نیرا نے اس موضوع پر بھارتی ایئرٹیل کے چیف سنیل متل سے بھی بات چیت کی تھی۔ راڈیہ نے حال ہی میں سی بی آئی کو دئے گئے بیان میں یہ باتیں قبول کی ہیں۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کو مطلع کیا گیا کہ ٹو جی اسپیکٹرم معاملے کی جانچ میں مداخلت کرنے کو لیکر سہارا گروپ کے چیف سبرتو رائے اور دو صحافیوں کے خلاف لگے الزامات کی جانچ کے سلسلے میں سی بی آئی نے کارپوریٹ لابسٹ نیرا راڈیہ اور ٹیلی ویژن چینلوں کے کچھ بڑے افسران سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ حالانکہ سی بی آئی نے کہا کہ ابھی ان ٹیلی ویژن صحافیوں اور انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے جانچ افسران کے بیچ ٹیلیفون پر ہی بات چیت کی جانچ کئے جانا باقی ہے جن سے ٹو جی اسپیکٹرم معاملے کی گہرائی میں جانے کے سلسلے میں مبینہ طور پر ان سے رابطہ قائم کیا گیا۔ یہ بیان سرکار ی وکیل کے ۔ کے وینوگوپال نے دیا ہے۔ انہوں نے سی بی آئی کے ذریعے کی گئی جانچ کے نتائج کو پڑھا۔ سی بی آئی نے بند لفافے میں اپنی رپورٹ دی ہے۔ جسٹس جی۔ ایس سنگھوی اور جسٹس اے ۔کے گانگولی کے بنچ کو یہ مطلع کیا گیا کہ سی بی آئی سبھی پہلوؤں سے الزامات کی جانچ کررہی ہے اور آزاد گواہوں اور دستاویزوں کی تلاش میں لگی ہے۔ وینو گوپال نے کہا نیرا راڈیہ سے پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔ ان لوگوں سے ایک سے زیادہ بار پوچھ تاچھ ہوگئی ہے کیونکہ ان کے بیان میں کچھ تضاد پایا جاتا تھا۔ بڑی عدالت نے گذشتہ 6 مئی کو کہا تھا کہ پہلی نظر میں سبرتو رائے اور سہارا نیوز نیٹ ورک کے دو صحافیوں اوپیندر رائے اور سبودھ جین کے خلاف ٹو جی معاملے کی جانچ میں مداخلت کرنے کا معاملہ بنتا ہے اور عدالت نے توہین عدالت کے لئے نوٹس جاری کیا تھا۔
ادھر سی بی آئی نے پٹیالہ ہاؤس کی ایک عدالت کو بتایا کہ سرخیوں میں چھائے ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کی اہم کڑی مانی جانے والی کارپوریٹ لابسٹ نیرا راڈیہ کی بات چیت والے ٹیپ معاملے سے جڑے سبھی ملزمان کو دئے جائیں گے۔ بتا دیں کہ ان ٹیپوں میں کارپوریٹ دنیا کے علاوہ میڈیا سمیت دیگر سیکٹر کے لوگوں سے بات چیت شامل ہے۔ جس کے کچھ ہی حصے باہر آ پائے ہیں۔ سی بی آئی کے ذریعے سبھی ملزمان کو یہ ٹیپ دستیاب کرانے سے کئی دیگر لوگوں کی بات چیت سے پردہ اٹھ سکتا ہے۔ دیش امید کرتا ہے کہ نیرا راڈیہ کے سارے ٹیپوں کو سامنے لایا جائے تاکہ عوام کو یہ پتہ چل سکے کہ اصل میں اس دیش پر راج کون کرتا ہے؟ جنتا یا دلال؟
Tags: 2G, A Raja, Anil Narendra, Bharti Airtel, Daily Pratap, ED, Mukesh Ambani, Neera Radia, Sunil Mittal, Tata Teleservices, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟