ہم راہ سے بھٹک گئے تھے، شکریہ اور الوداع



Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 19th July 2011
انل نریندر
برطانیہ کی سنسنی خیز خبروں کی علامت بن چکا ’نیوز آف دی ورلڈ‘ ایتوار کے روز تاریخ بن گیا۔ نہ صرف اس تاریخ میں کچھ واقعات خبر نویسوں کے لئے فکر میں ڈالنے والے ہیں تو کچھ شرم سے سر جھکانے والے ہیں۔ لیکن یہ خاتمہ واقعی افسوسناک ہے۔ آخری وقت میں ٹیبلائڈ نے بھی مانا ہے کہ وہ اپنی راہ سے بھٹکا ، جہاں سے واپس آنا ناممکن تھا۔ سالوں تک دنیا کے کئی ملکوں میں حکومت کرنے والے برطانیہ میں ’نیوز آف دی ورلڈ‘ ان چنندہ اخباروں میں تھا جس نے سرمایہ کاری کی لو دیکھی تو اس کے بجھنے کا بھی گوا ہ رہا۔ 168 سال پرانی تاریخ کا گواہ رہا یہ اخبار آج خود ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اس ٹیبلائڈ کو چلانے والی کمپنی نیوز انٹرنیشنل کے چیئرمین لینس لوپارڈ نے فون ہیکنگ معاملے میں پھنسنے کے بعد اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔مارڈوک نے فون ہیکنگ کے معاملے کے سبب اس 168 سال پرانے اور قریب 75 لاکھ قارئین کے ہونے کے باوجود اس اخبار کو بند کرنا ہی بہتر سمجھا۔ اس ٹیبلائڈ کے آخری ایڈیشن کے صفحہ اول پر عنوان تھا ’’شکریہ اور الوداع‘‘ اداریہ میں کہا گیا ہے پچھلے ڈیڑھ دہائی سے یہ ٹیبلائڈ برطانیہ کے لوگوں کی ضرورت کا حصہ بن گیا تھا۔ اس اخبار نے 168 برسوں میں 6 راجاؤں کا دور دیکھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہم نے تاریخ کو دیکھا ہے اور ہم نے تاریخ بنائی، پرانے زمانے سے لیکر ڈیجیٹل دور تک ۔ آخری اداریہ میں کہا گیا ہے کہ ہم نے مہارانی وکٹوریہ کے انتقال ، ٹائٹینک جہاز کے ڈوبنے اور دوسری جنگ عظیم اور 1996 کا ورلڈ کپ جیتا۔ چاند پر پہلا شخص ، ڈائنا کی موت سمیت کئی معاملوں کو ریکارڈ کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس ٹیبلائڈ نے کئی معاملے اور سیلیبریٹی کے بارے میں چونکانے والے انکشافات کئے۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ سیدھی بات ہے ہم راہ سے بھٹک گئے، میڈیا مغل روپاڈ مارڈوک کی مشہور شخصیت نے 80 سال کی عمر میں واقعی چیلنج بھرا فیصلہ کیا ہے۔ اتنی کامیاب اشاعت کے بعد چھوٹی موٹی غلطیوں کے لئے ٹیبلائڈ کو اتنا بڑا فیصلہ لینا پڑا۔ یہ فیصلہ تمام پرنٹ میڈیا کے لئے سبق ہے کہ تفتیشی صحافت کی بھی حد ہوتی ہے۔ ان حدود کو پھلانگنے کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔
Tags: Anil Narendra, Daily Pratap, News Of The World, Rupert Murdoc, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟