حکومت ہند کو دہشت گردی پر ’زیرو ٹالرینس ‘پالیسی اپنانی ہوگی

Published On 17th July 2011
 انل نریندر
وزیر اعظم منموہن سنگھ اوروزیرداخلہ چدمبرم جب یہ کہتے ہیں کہ ممبئی بم دھماکوں کے قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا۔ تو عوام کو اب برا سا لگنے لگا ہے اور ایسی کوری تسلیاں سن کر اب عوام اکھڑنے لگی ہے۔منموہن سنگھ نے یہ ہی لفظ 26 نومبر 2008 ء کو بھی ممبئی کے شہریوں سے کہے تھے۔ تب سے لیکر اس حکومت نے کیا کیا ہے؟ کچھ نہیں صرف کورے وعدے۔ ممبئی کے باشندے اب ان کوری تسلیوں سے اکتا چکے ہیں۔ وہ کینڈل مورچہ، امن مورچہ سے ہیومن چین بنا بنا کر عاجز آچکے ہیں۔ عوام کہتی ہے کہ کچھ کرکے دکھاؤ۔ امریکہ سے کچھ تو سبق لو۔ القاعدہ نے 26/11 کو امریکہ پر حملہ کیا تھا اسی وقت امریکہ نے اعلان کردیا تھا کہ وہ تب تک دم نہیں لیں گے جب تک وہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو ختم نہیں کردیں گے۔ بیشک اس کام میں امریکہ کو دس سال لگے لیکن انہوں نے یہ دکھا دیا کہ وہ اپنے ارادے کے پکے ہیں، جو کہتے ہیں اسے پورا کرنے کی قوت ارادی بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دشمن کے گھر میں گھس کر دشمن کو تہس نہس کر کے ہی دم لیا۔ آدمی تجربے سے ہی سیکھتا ہے اور مستقبل میں اپنے میں بہتری لاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ برطانیہ ، اسپین اور دوسرے مغربی دیش ہر دم چوکنے رہ کر دہشت گردوں کے منصوبے کو فیل کرتے آرہے ہیں۔ یہ اس لئے کامیاب ہورہے ہیں کیونکہ انہوں نے ’زیرو ٹالرینس‘ کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ یعنی ایک بھی حملہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔ اور ہمارے یہاں حملے پر حملے ہوتے جاتے ہیں اور ہم کوری دھمکیاں دینے سے باز نہیں آتے۔ عزت مآب وزیر داخلہ جی 12 مارچ1993ء سے جولائی 2011ء کے درمیان اکیلے ممبئی میں 8 بم دھماکے ہو چکے ہیں۔ جن میں 682 جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ کیا آپ کو یہ معلوم ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں مرنے والوں کی تعداداب کراچی اور کابل میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً برابر پہنچ چکی ہے۔ اکیلے ممبئی 2005ء میں تقریباً394 لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ اسی وقفے میں کراچی میں500 اور کابل میں 520 لوگ مرے۔ اگر پورے مہاراشٹر کی تعداد جوڑی جائے تو یہ تعداد506 بن جاتی ہے۔ ممبئی کو اب دنیا میں سب سے خطرناک شہروں میں شمار کیا جانے لگا ہے اور اس کو آپ کی لچر پالیسی نے بنا دیا ہے۔ چدمبرم نے بڑے زور شور سے این آئی اے یعنی قومی جانچ ایجنسی کا اعلان کیا تھا۔ کیا کیا آپ کی اس این آئی اے نے؟ اگر 26/11 کے بعد میں ہوئے پانچ دیگر حملوں کی بات کریں تو لگتا ہے کہ آپ کی این آئی اے کچھ نہیں کرپائی۔ 26/11 کو ممبئی میں ہوئے آتنکی حملے کے بعد دیش کے الگ الگ حصوں میں ہوئے واقعات کا سراغ ابھی تک نہیں لگایا جاسکا۔ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ ان میں سے تین معاملوں کی جانچ این آئی اے کے ہاتھوں میں ہے۔ 13 فروری کو پنے کی جرمن بیکری، 17 اپریل کو چنئی کے چنا سوامی اسٹیڈیم میں آئی پی ایل میچ سے ٹھیک پہلے دھماکہ، پچھلے سال ستمبر کی آخر میں جامع مسجد دہلی میں گولہ باری، دہلی ہائی کورٹ میں دھماکہ اور وارانسی میں ہوئے بم دھماکوں کا معمہ ابھی تک سلجھ نہیں پایا۔ یاد کرانا چاہیں گے کہ چدمبرم صاحب آپ نے بڑے زور شور سے اعلان کیا تھا کہ این آئی اے کی تکیل وزارت داخلہ نے اس لئے کی ہے تاکہ دیش بھر میں دہشت گردی سے متعلق معاملے سلجھائے جا سکیں۔ اس ایجنسی نے جامع مسجد، وارانسی اور چنا سوامی اسٹیڈیم میں ہوئے واقعات کی گتھی سلجھانے کا بیڑا اٹھایا تھا لیکن ابھی تک کامیابی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ وہیں ہائی کورٹ اور جرمن بیکری دھماکوں کو لیکر مقامی پولیس کے ذریعے چھان بین جاری ہے مگر حالات ٹھیک نہیں ہو پارہے ہیں۔اس معاملے میں ایک شخص کی گرفتاری ہوئی ہے لیکن اے ٹی ایس واردات میں اس کے ملوث ہونے کے بارے میں مضبوطی سے ثابت نہیں کرپائی ہے۔ ان معاملوں میں جانچ کی سوئی آتنکی تنظیم انڈین مجاہدین پر گھومتی رہی ہے لیکن ابھی تک ایجنسی کو اس کے ملوث ہونے کے پختہ ثبوت ابھی تک حاصل نہیں کرپائی ہے۔ ایک آدھ معاملے میں اگر کوئی معاملہ عدالت جاتا ہے تو وہ بھی ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے ٹھپ ہوجاتا ہے۔ بم دھماکوں کے مجرم اکثر معاملوں میں بری ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جانچ ایجنسی لچر طریقے سے ثبوت اکٹھا کرتی ہیں اور ایسے ثبوت عدالت میں پختہ طور پر ٹھہر نہیں پاتے۔ دیش میں بم دھماکوں کے مقدمے سے وابستہ وکیل بھی تصدیق کرتے ہیں کہ جانچ ایجنسیاں ثبوت حاصل کرنے کے معاملے میں اکثر ڈھیلا ڈھالا غیر پیشہ ور رویہ اختیار کرتی ہیں جس سے ملزم چھوٹ جاتے ہیں اور جانچ ایجنسیوں کو کورٹ کی لتاڑ جھیلنی پڑتی ہے اور وہ پہلے کی طرح ٹال مٹول کے رویئے پر چلنے لگتی ہیں۔ ایسے بھی معاملے سامنے آئے ہیں جب زبردستی قبول نامے کی بنیاد پر جھوٹا مقدمہ بنا دیا گیا ہو۔ یوپی اے سرکار نے ٹاڈا ہٹانے میں بہت جلد بازی کی لیکن آج تک اس کی جگہ ایسا کوئی موثر قانون نہیں بنایا گیا جس سے دہشت گردوں کو سزا دلوا سکیں۔ دیش کی سکیورٹی ایجنسیوں کے لئے خطرہ بنے آتنک واد سے نمٹنے کے لئے آج بھی کوئی موزوں قانون دیش میں موجود نہیں ہے۔ اب تک 2005 ء سے لیکر7 دسمبر 2010ء تک چھوٹے بڑے کل ملا کر 21 آتنکی حملے ہوچکے ہیں۔
ممبئی میں تازہ بم دھماکوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ کہیں نہ کہیں ضرور ہے۔ امریکی میڈیا میں بھی یہ ہی کہا جارہا ہے۔ امریکی میڈیا نے ان دھماکوں پر لکھا ہے کہ ان دھماکوں نے پاکستان کی جانب سے آتنکیوں کے خلاف کی جارہی کارروائی کے اثر پر پھر سے سوالیہ نشان لگا دئے ہیں اور اس کے پیچھے لشکر کا ہاتھ ہونے کا شبہ ہے جس نے 2008 میں بھی ممبئی میں آتنکی حملہ کروایا تھا۔ جانچ سے چاہے جو بھی پتہ چلے لیکن ایک چیز صاف ہے کہ پاکستان پر بین الاقوامی برادری کے بھاری دباؤ کے باوجود یہ سبھی گروپ ابھی بھی وہاں سے اپنی سرگرمیوں کو چلا رہے ہیں اور حکومت ہند کوئی سخت قدم اٹھانے کی جگہ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔ بھارت سرکار اب تک ممبئی کے پچھلے حملوں میں پاکستان میں جاری مقدمے کو آگے نہیں بڑھواسکے اور قصورواروں کو سزا دلوانا تو دور رہا ،پاکستان سے بات چیت کا کیا تک ہے، یہ اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان کے چال چلن میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ آج بھی اس کی ٹیرر اسٹیٹ پالیسی ہے ۔ پاک نواز آتنکی تنظیموں کے نشانے پر آج بھی ممبئی ،دہلی اور بنگلورو جیسے بڑے شہر ہیں۔ ہم جب تک ’زیرو ٹالرینس‘ کی پالیسی پر نہیں چلتے تب تک ان دھماکوں کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ ایک بھی حملہ ہم اب برداشت نہیں کریں گے۔ ہمارے وزیر اعظم یا وزیر داخلہ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ لشکر یا انڈین مجاہدین کا اس حملے کے پیچھے ہونے کی بات کہہ سکے یا اشارہ تک کر سکے؟ انڈین مجاہدین اور پاکستان کی لشکر طیبہ کے درمیان رشتے رہے ہیں۔ سرکار آج تک پاکستان سے ممبئی حملوں کے پیچھے ماسٹر مائنڈ سے پوچھ تاچھ کرنے کی اجازت تک نہیں لے سکی ہے جبکہ واحد زندہ بچے دہشت گرد عامر اجمل قصاب کو سینے سے چپکائے ہوئے ہے اور افضل گورو کو بھی شوپیس بنا کر رکھا ہوا ہے۔ کیوں نہیں اب افضل گورو کو پھانسی پر لٹکا دیتی تاکہ ان آتنکیوں کو ایک صاف اشارہ دیا جائے؟ آج ان جلاسوں ،ریبیٹی، گل کی یاد آتی ہے جب انہو ں نے پنجاب میں آتنکیوں کو یہ سندیش دیا تھا کہ تم ایک مارو تو ہم دس ماریں گے، گولی کا جواب گولی سے دیا جائے گا۔ یوں ہی پنجاب میں آتنک واد ختم نہیں ہوا تھا۔ اس کے پیچھے ٹھوس حکمت عملی تھی۔ سرکار کی قوت ارادی تھی اور سکیورٹی فورس کو اپنے حساب سے کارروائی کرنے کی کھلی چھوٹ تھی۔
دیش کی جنتا اس سرکار کی آتنک واد سے نمٹنے کی ٹال مٹول کی پالیسی سے تنگ آچکی ہے۔ اگر یہ کہیں کہ جنتا ’زیرو ٹالرینس‘ پر آچکی ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ممبئی کے شہریوں کو آخر کب تک اسی طرح دہشت کے سائے میں جینا پڑے گا؟ ایک بھی دہشت گرد حملہ آخر کیوں برداشت کیا جائے؟ لوگ یہ سنتے سنتے عاجز آچکے ہیں کہ ہم ایک خطرناک پڑوس میں رہتے ہیں ان کے کان یہ سن کرپک چکے ہیں کہ ہم ان قصورواروں کو نہیں بخشیں گے۔ جنتا کو سکیورٹی کی گارنٹی چاہئے تاکہ وہ بے خوف زندگی جی سکیں۔ بیشک ان کے روٹین پر لوٹنا کچھ حد تک ضروری ہے لیکن اس کا مطلب سرکار کو یہ نہیں نکالنا چاہئے کہ وہ سب طرح کی کوری بکواس ہضم کرنے کو تیار ہے۔ اگر کوئی لیڈر آتنکی حملے کا شکار ہوتا ہے تو بھی کیا سرکار کا یہ ہی رخ ہوتا؟ یہ تو بیچارے بھولے بھالے معمولی عوام ہیں جو مارے جاتے ہیں لیکن سرکار کو جنتا کے موڈ کو سمجھنا ہوگا۔ جنتا چیخ چیخ کر پکار رہی ہے ’’بس اب اور نہیں‘‘۔
Tags: 13/7, 26/11, Afzal Guru, Anil Narendra, Bomb Blast, Daily Pratap, Indian Mujahideen, Kasab, Lashkar e Toeba, Manmohan Singh, NIA, P. Chidambaram, Pakistan, Politician, Terrorist, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟