کیا کانگریس سخت فیصلے لینے میںاہل ہے ؟

پہلے ہریانہ ،اب مہاراشٹر میں اسمبلی چناو¿ میںزبردست ہار کے بعد کانگریس نے اس کی وجوہات پر منتھن کیا اور مانا کہ آپسی رسہ کشی اورتنظیمی کمزوری کے ساتھ ساتھ کسی کی جوابدہی واضح نا ہونے سے پارٹی کی یہ درگتی ہوئی ہے ۔ساتھ ہی ای وی ایم پر بھی شبہ کا اشو بھی اٹھا ۔کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں پرستاو¿ پاس کر الزام لگایاگیا کہ آزاد اور منصفانہ چناو¿ آئینی مینڈیٹ ہے ۔لیکن چناو¿ کمیشن کا جانبدارانہ طریقہ پر سنگین سوال اٹھ رہے ہیں ۔پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ سماج کے کئی طبقوں میں مایوسی اورخدشات بڑھے ہین ۔پارٹی صدر ملکا ارجن کھڑگے نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اب پرانا ڈھرا نہیں چلنے والا ہے ۔پارٹی نیتاو¿ں کو بغیر سوچے سمجھے ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنے سے باز آنا ہوگا ۔ہمیں فوراً چناو¿ نتیجوں سے سبق لیتے ہوئے تنظیمی سطح پر اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ نتیجے ہمارے لئے صاف پیغام ہیں ۔کھڑگے نے لوک سبھا چناو¿ میں بہتر پرفارمنس سے کانگریس کے حق میں بنے ماحول کے باوجود ہریانہ اور مہاراشٹر میں ہار کو تعجب خیز بتایا اور کہا کہ صرف 6 مہینے پہلے نتیجے آئے تھے اس کے بعد ایسے نتیجے کیا اسباب ہیں ۔ہم ماحول کا فائدہ نہیں اٹھاپاتے؟ ملکا ارجن کھڑگے ،ہریانہ مہاراشٹر ،چھتیس گڑھ ،مدھیہ پردیش اورراجستھان سے تبدیلی کی شروعات کرسکتے ہیں۔اگر وہ صحیح معنون میں کانگریس تنظیم کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔راہل گاندھی ،پرینکا گاندھی اور خود کھڑگے بیشک ماحول تیار کریں اس کا فائدہ تبھی ملے گا جب کانگریس تنظیم اس منفی ہوا کو بھنا سکے گی۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ان تین نیتاو¿ں کو چھوڑ کر باقی کانگریسی اب محنت کرنے کے عادی نہیں رہے اور زمین پر اترنے کو تیارنہیں ہیں اور جنتا کے جذبات سے کٹ چکے ہیں ۔ہائی کمان کے قریبی لوگ چاہے من چاہے ٹکٹوں کا بٹوارہ کرتے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے ٹکٹوں کی فروختگی ہوتی ہے ۔پارٹی کو اس سے چھٹکارہ دلانا ہوگا وہ تنظیم منتری ہی کیا جو آج تک ضلع صدر بلا ک صدر ،بوتھ صدر تک نہیں بنا سکے ؟ چھتیس گڑھ اور راجستھان میںہار کے قریب چھ مہینے گزر چکے ہیں لیکن پارٹی ابھی تک ان ریاستوں میں جواب دہی طے کرتے ہوئے تبدیلی نہیں کر پائی ہے ۔دونوں ریاستوں میں پردیش کانگریس صدر اپنے اپنے عہدوں پر بنے ہوئے ہیں۔ہماچل پردیش ،اڈیشہ میں پارٹی پردیش ورکنگ کمیٹی کو بھنگ کر چکی ہے لیکن کافی کوششوں کے نام پر پردیش کانگریس کے اندر گروپوں میںرضامندی نہیں بن پارہی ہے ایسے میں پارٹی جوابدہی طے کرنے کی ہمت رکھتی ہے تو اسے پارٹی کے اندر کافی مخالفت کاسامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ پردیش مشینری تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہے ۔مہاراشٹر میں بھی پارٹی کے نئے پردیش کانگریس صدر کی تقرری کرتے ہوئے انچارج کو بھی بدلنا ہوگا۔پردیش صدر نانا پٹولے اور پردیش انچارج رمیش نتھلا دونوں کے خلاف اندر اندر ناراضگی ہے ۔ہریانہ چناو¿ نتائج کو دو ماہ سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے پارٹی نے ابھی تک ہار سے کوئی سبق نہیں لیا ہے ۔آپسی گروپ بندی کی وجہ سے پارٹی اسمبلی میں نیتا تک اتنے دنوں کے بعد طے نہیں کرپائی ۔کانگریس کا اوپر سے نیچے تک اوور ہال کرنا ضروری ہوگا لیکن سوال ہے کہ کیا ملکا ارجن کھڑگے جی ایسا کر سکتے ہیں؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!