کیا ابدھیش ڈپٹی اسپیکر بن سکتے ہیں؟

پہلے لوک سبھا اسپیکر کو لیکر حکمراں اور اپوزیشن میں گھماسان دیکھنے کوملا۔اب ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کو لیکر ایک اور گھماسان دیکھنے کو ملا رہا ہے ۔اب ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لئے انڈیا اتحاد نے اپنی دعویداری تیز کرنے کا فیصلہ کیا ۔یہ تجویز ترنمول کانگریس صدر ممتا بنرجی کی طرف سے آئی ہے ۔انڈیا اتحاد کو ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لئے فیض آباد سے سپا ایم پی و ایودھیا کے ہیرو ابدھیش پرساد کو اپنا امیدوار بنایا جائے ۔بتا دیں کہ ابھی تک این ڈی اے نے ڈپٹی اسپیکر کے نام کا اعلان نہیں کیا ہے ۔پچھلی لوک سبھا میں کوئی ڈپٹی اسپیکر نہیں بنایا گیا تھا ۔حالانکہ روایت رہی ہے کہ اسپیکر اگر حکمراں فریق کا ہوتا ہے تو ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ اپوزیشن کو جاتا ہے لیکن حکمراں فریق نے ابھی تک ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لئے اپنا کوئی فیصلہ نہیں بتایا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ مودی جی اس عہدے کو بھی اپنے پاس رکھیں یا پھر اپنے این ڈی اے کے کسی ساتھی کو دینا پسند کریں ۔اس درمیان وزیر دفاع راجناتھ سنگھ جو آج کل مودی جی کے خاص بڈبولے بنے ہوئے ہیں نے ممتا بنرجی سے ڈپٹی اسپیکر کو لیکر بات چیت کی تھی ۔پچھلے کچھ وقت سے دیکھا جارہا ہے کہ مودی جی ہر جگہ راجناتھ سنگھ کو آگے کررہے ہیں چاہے وہ اسپیکر کا معاملہ ہو ۔این ڈی اے کی میٹنگ ہو امت شاہ آج کل پیچھے کر دئیے گئے ہیں ساری بات چیت راجناتھ سنگھ ہی کررہے ہیں ۔بہرحال 78 سالہ ابدھیش پرساد دلت فرقہ سے آتے ہیں ۔فیض آباد جیسی اہم ترین سیٹ جس میں ایودھیا بھی آتا ہے جیتے ہیں پہلے خبریں تھی کہ کانگریس کیرل سے 8بار ایم پی رہے کے سریش کو اس عہدے کے لئے اپنا امیدوار بنانا چاہتی ہے ۔ٹی ایم سی ایس پی اور کانگریس میں بن رہی حکمت عملی کے مطابق ترنمول سیکریٹری جنرل ابھیشیک بنرجی سپا صدر اکھلیش یادو اور نیتا اپوزیشن راہل گاندھی پہلے ہی اس پر بات کر چکے ہیں ۔دیگر اتحادی پارٹیوں سے بھی اس پر بات چیت ہو سکتی ہے ۔اپوزیشن کو لگتا ہے کہ فیض آباد ایم پی ابدھیش پرساد مشترکہ امیدوار ہوں گے ان کی امیدواری ایک مضبوط پیغام دے گی ۔اپوزیشن کے ایک لیڈر نے کہا کہ ابدھیش پرساد کی جیت بھاجپا کے ہندوتو ایجنڈے کی ہار کی علامت ہے ۔ایک دلت نیتا کی شکل میں ایک عام سیٹ سے ان کی جیت بھی ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم ترین لمحہ تھا ۔ذرائع نے کہا کہ اگر سرکارپارلیمنٹ کا پہلا سیشن ختم ہونے سے پہلے ڈپٹی اسپیکر کی تقرری کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتی ہے تو اپوزیشن اس مسئلے پر لوک سبھا اسپیکر کو خط لکھے گی ۔ابھدیش سابق وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے قریبیوں میں رہے ہیں ۔1977 میں ایودھیا شہر کی سوہاول اسمبلی سے چنے گئے تھے ۔اس کے بعد ابھدیش پرساد نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔1985-1989-1993-1996-2002-2007-2012 تک مسلسل چناو¿ جیت کر آرہے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی ابھدیش کو قبول کرتے ہیں یا نہیں؟ کیا اپنا امیدوار کھڑا کریں گے؟ ایک دلت نیتا کو وہ بھی جو فیض آبا د ایودھیا سے جیتا ہے اس کی مخالفت کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا اگر کرتے ہیں تو اس کا غلط پیغام جنتا میں جائے گا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟