بہار میں منڈل بھاری یا کمنڈل ؟

بہار میں ایودھیا کا اثر رہے گا یا پھر منڈل بھاری پڑے گا ؟ 1990 کی دہائی میں جب ایودھیا میںرام مندر بنانے کو لیکر تحریک شروع ہوئی تھی اس وقت بہار میں منڈل کی سیاست چل رہی تھی ۔رام مندر تحریک میں بھاجپا کے سب سے بڑے لیڈر لال کرشن اڈوانی کو 1990 کو گرفتار کیا گیا تھا ۔تب بہار کے وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو تھے ۔لالو پرساد یادو اب بھی اڈوانی کی گرفتاری کا کریڈٹ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے بہار کو فرقہ وارانہ کشیدگی سے بچا لیا تھا ۔اتوار کو ایودھیا میں جب رام مندر کی پران پرتیشٹھا ہو رہی تھی تب بہار کی سڑکوں پر بھی اس کا اثر نظر آرہا تھا ۔حالانکہ بہار ان ریاستوں میں شامل رہا جس نے ایودھیا میں رام للا کی پران پرتیشٹھا پر کسی طرح کی چٹھی کا اعلان نہیں کیا تھا ۔ادھر پورا بہار ایودھیا میں 500 برس رام للا کے لوٹنے کی خوشی منا رہا تھا ۔ادھر بہار کو ڈبل خوشی کا موقع ملا گیا ۔بہار کے بڑے نیتا کرپوری ٹھاکر کی جینتی کے 100 سال پورے ہونے کے ٹھیک ایک دن پہلے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے بعد از مرگ بھارت رتن دے کر چونکا دیا ۔اس ایک فیصلے سے عام چناو¿ سے پہلے دہلی سے لیکر پٹنہ تک سیاسی ماحول گرم ہو گیا ۔بھارت رتن کے اعلان کے بعد وزیراعظم نریندرمودی نے x پر کہا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہو رہی ہے کہ بھارت سرکار نے سماجی انصاف کے حمایتی مہان جن نائک کرپوری ٹھاکر جی کو بھارت رتن سے اعزاز کرنے کا فیصلہ لیا ہے ۔دراصل پچھلے کچھ دنوں سے بہار میں پچھڑے کی سیاست زوروں پر ہے ۔بی جے پی کے ہندوتو اور رام مندر فیکٹر سے مقابلہ کرنے کیلئے نتیش کمار نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا کارڈ کھیلا ۔مہا گٹھبندھن سرکار نے نہ صرف ذات پات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار جاری کئے بلکہ اس کے بعد پسماندہ طبقات کیلئے ریزرویشن کی حد بڑھا دی ۔وہیں بھدوار کو جے ڈی یو کی ریلی میں کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دئیے جانے کی مانگ بھی ایجنڈے میں تھی۔بھاجپا کو پتہ تھا کہ آر جے ڈی کے مسلم اور یادو ووٹ تجزیہ اور ساتھ میں نتیش کمار کے پچھڑے ووٹ کے حساب کتاب سے نمٹنا اتنا آسان نہیں ہے ایسے میں کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینے کے بی جے پی نے پچھڑوں کی سیاست اور نتیش کے ووٹ بینک میں سیندھ لگانے کی کوشش کی ہے ۔کرپوری ٹھاکر کوبھارت رتن دے کر سماجی انصاف کو بڑی منظوری دی ہے ۔کرپوری ٹھاکر کے بہانے بہار کے علاوہ اتر پردیش اور اس سے لگی ریاستوں میں بڑی کمپین شروع کر سکتی ہے ۔پہلے بھی نریندرمودی کی قیادت میں بھاجپا نے اپوزیشن کے نشانوں کو اپنے پالے میں کرنے کی کامیاب سیاست کی ہے ۔ایسے میں بی جے پی نے ایک فیصلہ سے دو شکار کئے ہیں اور منڈل کمنڈل دونوں کارڈ کو اپنے پالے میں کرنے کی کوشش کی ہے ۔2024 کا لوک سبھا چناو¿ قریب ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کی یہ چال دونوں منڈل اور کمنڈل ساتھ لینے کی حکمت عملی کتنی کامیاب رہتی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟