کانگریس کو اپنوں نے ہی ڈبایا !

ٹھیک لوک سبھا چناﺅ سے پہلے کانگریس کو 4 میں سے 3 ریاستوں میں ہار کا منھ دیکھنا پڑا 2024 کے اہم چناﺅ سے پہلے یہ نتیجے معنٰی رکھتے ہیں ۔ہندی بیلٹ کی ریاستوں مدھیہ پردیش ،چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بھاجپا نے کانگریس کو کراری شکست دی ہے کانگریس کو ایک بار پھر محاسبہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے ہار کے اسباب پر غور کرنے کے لئے پارٹی جلد ریاستی سطح پر جائزہ لینے کی تیاری کر رہی ہے ۔ہار کو لیکر پارٹی کے کے اندر الگ الگ رائے ہے لیکن زیادہ تر لیڈر اس بات پر متفق ہیں کے پارٹی ہندی زبان بولنے والے ووٹروں کی نبض پکڑنے میں نکام رہی ہے اب اس ہار سے اس ہندی بیلٹ میں کانگریس تقریباً ختم ہو چکی ہے ۔شمالی ہندوستان میں پارٹی کی صرف ہماچل پردیش میں سرکار ہے ،ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلی بار ہوا ہے ۔سال 1998 میں جب کانگریس صدر کے طور پر سونیا گاندھی نے ذمہ داری سنبھالی تھی تب پارٹی صرف ایک یندی ریاست سمیت 3 ریاستوں میں اختدار میں تھی ۔مدھیہ پردیش اڈیسہ اور میزورم میں اس کی حکومت تھی کانگریس کی ہار کی ایک اہم وجہ سینئر لیڈروں میں گروپ بندی اور تالمیل میں کمی مانی جا رہی ہے ۔ساتھ ہی بھاجپا نے مضبوط تنظیم کے ذریعہ بھی کانگریس کی حکمت عملی کو بے اثر کر دیا ٹکٹ بٹوارے کے بعد کانگریس کے باغیوں نے جو جنوتی پیش کی پارٹی لیڈر شپ اس سے مقابلہ نہیں کر پائی ۔کانگریس ہائی کمان نے مدھیہ پردیش میں پارٹی صدر کمل ناتھ ،چھتیس گڑھ میں وزیراعلیٰ پھوپیش بگھیل اور راجستھا ن میں وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کو کھلی چھوٹ دینے پر منمانی کرنے دی ان تینوں ریاستوں میں نتیجوں کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے ۔چھتیس گڑھ کی ہار کی وجہ کانگریس کے ہاتھ سے وہ ریاست نکل گئی ہے جو پارٹی کو وسائل دستیاب کرانے میں سب سے آگے رہتی تھی اور اس کو بھی زیادہ چھوٹ دے دی گئی ۔مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کی جس کچن کبینیٹ کی وجہ سے وہ پارٹی نیتاﺅ سے دور رہے ہیں یہی ایک وجہ سے ریاست میں پارٹی کو چلا رہی تھی اسی نے امیدواروں کے انتخاب میں بھی دخل اندازی کی اور اپنے ٹھنگ سے تنظیم چلائی جب مرضی ہوئی انچارج بدل دیا ۔کمل ناتھ نے از خود وزیراعلیٰ اعلان کر دیا ۔ہائی کمان چپ رہ کر تماشائی بنا رہا ۔مدھیہ پردیش میں کئی مہینوںسے اختدار مخالف لہر چل رہی تھی لیکن کانگریس اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکی ۔کمل ناتھ نے کانگریس کو تو ہر وایا ہے ساتھ ہی راہل گاندھی کو بھی چت کر وا دیا ۔راجستھان میں مفت علاج جیسی راغب کرنے والی اسکیموں کی وجہ سے ہی وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے چناﺅ میں واپسی کی تھی ۔حالانکہ وزیروں اورممبرانے اسمبلی کے خلاف اختدار مخالف شروع سے کانگریس پر بھاری پڑ رہی تھی پھر بھی گہلوت نے اپنے حمایتیوں کو دباﺅ ڈال کر کے ٹکٹ دل وائے ۔جب سونیا گاندھی کانگریس صدر تھی تب ان کی ہدایت پر ڈسیپلن توڑنے والے وزیر شانتی دھاریوال کو پارٹی ٹکٹ نہیں دینا چاہتی تھی لیکن گہلوت نے ذبر دستی دلوایا گہلوت سے راجستھان میں کانگریس کو اپنے ڈھنگ سے چلائے جانے کا الزام ہے انہوںنے باغی لیڈر سچن پائلٹ سے کبھی سلح نہیں کی ۔سچن اور گہلوت میں سمجھوتہ کرواکر راہل نے بہت کوشش کی لیکن یہ دوستی ظاہر ہی تھی لیکن اندر خانے لڑائی جاری رہی ان کے حمائتی کہتے تھے اگر کانگریس چناﺅ میں کامیاب ہو جاتی تو گہلوت کو فائدہ ہوگا اور ہاری تو پائلٹ کو ۔اب دیکھنا یہ ہے کیا کانگریس ہائی کمان ان حالات پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے یا لپا پوتی؟پکی پکائی فسل کو کاٹنے میں ایک بار پھر کانگریس ناکام رہی ۔راہل گاندھی کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟