الٹا پڑا داﺅں .....نا خدا ملا نا ویصالے صنم !

رےاست کے اقتدار کی ہیڈ ٹرک لگانے ،قومی سیاست کی خواہشات میں اقلتوں کے ووٹ پانے کے لئے خوش آمدی والی اسکیموں کی بھرمار لگانے اور اسد الدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی اے کو ساتھ لینے کے با وجود چندر شیکھر راﺅ کے سی آر کی داﺅ الٹا پڑ گیا یہاں تک کی پارٹی کی نام تلنگانہ راشٹر سمیتی سے بھارت راشٹر سمیتی کرنے کا بھی فائدہ نہیں ملا اور سیٹیں پچھلے چناﺅ کے مقابلے آدھی سے بھی کم رہہ گئی نتیجوں سے صاف ہے کے مسلم خوشامدی کی پالیسی نے کے سی آر کو دوہرا چھٹکا دیا ہے الگ سے آئی ٹی پارک شادی مبارک جےسی اسکیموں کے با وجود مسلم ووٹروں نے قومی سیاست میں کانگریس کو مضبوط کرنے کے لئے بی آر ایس کو اسی طرح کنارے کر دیا جس طرح کرناٹک میں اس نے جے ڈی ایس کو کیا تھا دوسرے خوشامدی کے چلتے اکثریتی ووٹوں میں برابری پولورائزیشن ہوا اور مسلمانوں کے قریب قریب ایک طرفہ حمایت اور بی آر ایس کے مقابلے سب سے مضبوط پارٹی ہونے کا سیدھا فائدہ کانگریس کو ملا ۔کسی بھی چناﺅ میں عوامی بہبود اور ترقی کے اشو اہم اجنڈے کے شکل میں سامنے آتا ہے اکثر اس بات کو لیکر بھی الجھن رہتی ہے کے بہبودی اور ترقی پسندی میں سے کس پر زےادہ توجہ دی جانی چاہئے ۔مگر بدقسمتی یہ ہے کے اس سال ایک شخص ،ان کا خاندان اور ان کے کام کرنے طریقہ 2014 میں بنے بھارت کے 29 وے اسٹیٹ اور سب سے نوجوان ریاست تلنگانہ کا ایک لوتا چناﺅی اشو بن گیا تلنگانہ کا ایک اور عجب پہلو یہ ہے کے یہاں پچھلے کچھ ورشوں میں بی جے پی جو ووٹ بینک بنانے میں کامیاب رہی تھی اب وہ کمزور ہوئی ہے۔ کمل کے بجائے اب کانگریس مضبوط ہو گئی ہے ایم ٹی رامہ راﺅ جنہیں کے ٹی آر بھی کہا جاتا ہے تاکہ ان کے نام کی آواز ان کے وزیراعلیٰ والد کے سی آر کے نام سے میل کھائے نے حال ہی میں جب قومی چینلوں سے بات کی وہ ترقی کی تفصیل کا ذکر کرتے ہیں اور اعداد شمار کا حوالہ دیتے نظر آئے اور ان میں کچھ علاقہ میں ہوئی طرقی کو دکھاتے ہیں لیکن انہوںنے انسانی ترقی کے اشاروں اور خواندگی کا ذکر کرتے ہیں لیکن انہوںنے تلنگانہ میں اقتصادی طور پر مضبوط بنایا ہے لیکن انسانی بہبود کے معاملے میں اس کا رکارٹ خراب ہے تازہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ،سیاست میں 3.08 لاکھ سالانہ فی کس آمدنی کے ساتھ دیش میں سب سے اوپر ہے ،پہلی بات جو صاف ہے وہ یہ ہے کے بی آر ایس کو ووٹروں کی دیر پا تھکان کی مار چھیلنی پڑی بہت سے ووٹر کچھ نیا چاہتے ہیں دوسری طرف سب سے اہم بات یہ رہی کے کے سی آر ان کے خاندان کے رویہ۔اپوزیشن نے اسے کے سی آر خاندان کے حکمرانی کے مغرور رویہ کی شکل میں پیش کیا ۔تیسری وجہ بے روزگاری کے سبب نوجوانوں میں بی آر ایس سے مایوسی رہی اس بات کو لیکر سب سے زیادہ نقطہ چینی ہو رہی ہے وہ یہ ہے کے بی آر ایس نے روگار کے موقع پیدا کرنے میں بہت کم توجہ دی ہے ریاست کے سیاسی حالات ایسے تھے جو ووٹر کبھی بی جے پی کی طرف چھکے تھے اب انہوںنے کانگریس کا رخ کر لیا ہے ۔کانگریس نے بار بار الزام لگایا کے بی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان ملی بھگت ہے یہ پیغام میں ریاست میں تےزی سے بڑے پیمانے پر پھےل گیا جس سے بی جے پی کی مضبوطی ختم ہو گئی ۔(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟