چنی ہوئی دہلی حکومت کا کیا کام ہے؟

افسران کے تبادلے و تقرری کے معاملے میں سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے سوال کیا ہے کہ اگر انتظامیہ کا پورا کنٹرول آپ کے پاس ہے تو پھر دہلی میں ایک چنی ہوئی سرکار کا کیا ہے ؟مرکزی اور دہلی حکومت کے درمیان کام کاج کو لیکر جاری کھینچ تان کے درمیان سپریم کورٹ کے اس رائے زنی کو انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے پہلے صفحے پر جگہ دی ہے ۔دہلی کے کام کاج پر کنٹرول کو لیکر مرکزی اور دہلی سرکار کے درمیان کھینچ تان کے معاملے میں سپریم کورٹ کی پانچ ممبری آئینی بنچ سماعت کررہی ہے اس کی سربراہی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کررہے ہیں۔ بنچ نے مرکزی سرکار کی طرف سے موجود سرکاری وکیل تشار مہتا سے پوچھا کہ اگر سارا دہلی کا انتظامیہ مرکزی حکومت کے اشارے پر چلایا جانا ہے تو پھر دہلی میں ایک منتخب حکومت کا کیا مقصد ہے ؟سپریم کورٹ کا یہ ریمارکس تشار مہتا کے اس دلیل کے بعد آئے کہ جس میں کہا تھا کہ مرکزی حکمراں ریاست کو بنانے کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ مرکز اس کا انتظامیہ خود چلانا چاہتا ہے ۔اور سبھی مرکزی حکمراں ریاستوں کو مرکز کے سول سروس کے حکام اور مرکزی سرکار کے ملازم چلاتے ہیں۔ تشار مہتا نے کہا کہ حکام کے کام کاج پر کنٹرول اور ان کے انتظامیہ یا حکمرانی کنٹرول کے درمیان ہوتی ہے۔ایک چنی ہوئی حکومت کے نمائندے کے طور حکومت کا کام کاج سے متعلق کنٹرول ہمیشہ وزیر کے پاس رہتا ہے ۔ انہوں نے صاف طور پر بتایا کہ جب مرکزی حکومت کے اعلیٰ افسر یا آئی اے ایس افسر کو دادر اور نگر ہویلی میں ایک کمشنر کے طور پر تعینا ت کیا جاتا ہے تو وہ ریاستی حکومت کی پالیسیوں پر چلتا ہے ۔ وہ افسر کسی کو لائسنس جاری کرنے کیلئے متعلقہ ریاستی ٹریڈ قواعد کو مانے گا اور وزیر کے تئیں جواب دہ ہوگا ۔ وزیر پالیسی بنائیںگے ،کیسے لائسنس دینا ہے اور کیسے نہیں دینا ہے ان تقاضو پر غور کرنا ہے ۔ معاملہ کیسے چلے گاکا م سے جوڑے کنٹرول منتخبہ وزیر کا ہوگا۔ اس پر تشار مہتا نے کہا کہ ہمارا لینا دینا انتظامی کنٹرول سے ہے ،جیسے کون تقرری کرےگا ،کون شعبہ جاتی کاروائی کرتا ہے ،کون تبادلہ کرےگا لیکن وہ افسر ہوم سیکریٹری سے یہ نہیں پوچھ سکتا ہے کہ وہ کسی کو لائسنس جاری کرے یا نہیں اس کیلئے اسے وزیر سے پوچھنا ہوگا۔ یہ دو الگ الگ باتیں ہےں اور کام کاج کا کنٹرول ہمیشہ متعلقہ وزیر اعلیٰ کے پاس ہی ہوتا ہے۔اور اس پر حیرانی جتاتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا نے پوچھا کہ کیا اس سے ناگزیں حالات پیدا نہیں ہو جائیںگے ۔ انہوں نے کہا کہ مان لیجیے کہ کوئی افسر اپنا کام ٹھیک سے نہیں کررہاہے تو دہلی سرکا ر کی یہ کہنے میں کوئی رول نہیں ہے کہ اس افسر کہ بجائے ہم دوسرا کوئی افسر چاہتے ہیں ۔۔۔ دیکھئے یہ کتنا پیچیدہ معاملہ ہوسکتا ہے کہ دہلی سرکار کہاںہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ افسر کو کہاں تعینات کیا جائے گا۔ اس پر دہلی سرکار کا کوئی کنٹرول نہیں چاہے وہ محکمہ تعلیم ہو یا کوئی اور محکمہ ہو ۔ اس کے جواب میں سرکاری وکیل تشار مہتا نے کہا کہ قانون کے مطابق انتظامیہ سے متعلق کنٹرول وزارت داخلہ کے ہاتھ میں ہوگا ۔ ایسے میں لیفٹمنٹ گورنر کو مطلع کیا جا سکتا ہے کہ براہ کرم اس افسر کا تبادلہ کر دیجئے ۔ایل اس دوخواست کو آگے بڑھانے کیلئے پابند ہے ۔ سماعت کررہی بنچ میں جسٹس ایم .آر.شاہ ،جسٹس کرشن مراری ،جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس وی ایس نرسمہا شامل ہیں ۔ اس معاملے میں سماعت جاری ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟