کیا 2024کی بساط اس سال بچھے گی؟

اس سال کی سیاسی سرگرمیوں سے صرف 2024کی بساط ہی نہیں بچھے گی بلکہ لوک سبھا چناو¿ کی حالت اور سمت بھی طے ہو جائے گی ۔کیوں کہ اس برس 9ریاستوںمیں اسمبلی چناو¿ ہونے والے ہیں ۔جن میں ساو¿تھ انڈیا میںکرناٹک اور تلنگانا اور شمال مشرقی بھارت کے راجیوں میکھالیہ ،تریپورہ ،ناگالینڈ اور میزورم چناو¿ ہونے ہیں۔ جبکہ ہندی زبان بولنے والی ریاستوں مدھیہ پردیش ،راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔بتادیں کہ کرناٹک اور مدھیہ پردیش اور تریپورہ میں بھاجپا کی حکومتیں ہیں جبکہ ناگا لینڈ ،میکھالیہ اور میزورم میں علاقی پارٹیاں قابض ہیں جو بھاجپا کی اتحادی پارٹیاںہیں ۔ وہیں راجستھان اور چھتیس گڑہ میں کانگریس کی حکومت ہے ،تلنگا نا میں ٹی آرایس قابض ہے ۔ ان ریاستوں کی چناو¿ دیش کی سیاست کے حساب سے بیحد اہم ہےں کیوں کہ اس بعد لو ک سبھا کے چناو¿ ہونے ہیں ۔ ایسے زیادہ تر ریاستوں میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے تو علاقائی پارٹیوں کی بھی اگنی پرکشا ہے ۔ جس ریاستوںمیں چناو¿ ہونے ہیں ان میں سے زیادہ تر اہم ریاستوںمیں کانگریس اور بھاجپا کے درمیان اہم مقابلہ ہے ۔ جن میں مدھیہ پردیش ،راجستھان ،چھتیس گڑھ اور کرناٹک شامل ہیں ۔ان چار ریاستوںمیں سے دو دو ریاستیں بھاجپا اور کانگریس کے پاس ہیں اس لئے دونوں پارٹیوں کیلئے ان میں اقتدار بچائے رکھنا ایک بڑی چنوتی ہوگی ۔ بی جے پی کرناٹک اور مدھیہ پردیش کا اقتدار برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی لیکن راجستھا ن میں ہر پانچ سال میں تبدلی اقتدار کی روایت رہی ہے ایسے میں کانگریس کو یہاں کافی جد جہد کرنی ہوگی ۔ بی جے پی کو 2018میں ان چار ریا ستوںمیں ہار کا منہ دیکھنا پڑا تھا اور کرناٹک میں وہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی تھی۔ 2019کے بعد مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں آپریشن لوٹس کے ذریعے کانگریس ممبران اسمبلی کی بغاوت نے بی جے پی کو سرکار بنانے کا موقع دے دیا ایسے میں بی جے لے سامنے سب سے بڑی چنوتی ساو¿تھ انڈیا کے اپنے اکلوتے درگ کو بچائے رکھنے کی ہے چوںکہ ریڈی بندھوو¿ ں نے اپنی الگ پارٹی بنا لی ہے جبکہ تلنگانا میںوی ایس آر کیلئے اس بار بی جے پی سے سخت چنوتی ملنے جار ہی ہے اور پارٹی کے سی آر کے خلاف جاریحانہ محاذ کھول دیا ہے ۔کانگریس بھی پورے دم خم کے ساتھ میدان میںہے اس کے علاقہ شمال مشرق میں تریپورہ میکھالیہ ،ناگالینڈ وار میزورم بھی دو دو ہاتھ کرنے ہوں گے ۔تریپورہ سے لیکر اپنی واپسی کیلئے بی جے پی ہی نہیں بلکہ ٹی ایم سی سے بھی ٹکرانا ہوگا۔ ایسے ہی میکھالیہ ،میزورم اورپولینڈ میںکانگریس کی رنمائیوالی علاقائی پارٹیوں کے کے اتحاد ور بھاجپا کے اتحاد کے درمیان مقابلہ ہے۔ایسے میں اگر علاقی پارٹیوں نے چناو¿ میں اچھی پرفارمنس دکھائی تو چھوٹی پارٹیوں میں اہمیت بڑھے گی ۔ بہرحال راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے آنے والے انتخابات میں کیا اثر پڑے گا یہ بھی دیکھنا ہوگا۔کل ملاکر یہ نیا سال سیاست کے لحاظ سے انتہائی اہم ترین ثابت ہوگا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟